
انتشار،افراتفری،ہیجان اور عمران کی سرکس
Chief executive,Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)
ملکی سیاست اور سماج میں چہار جانب آج کل عمران خان یا مریم نواز ہی موضوع گفتگو ہیں۔عمران خان اپنے انتشار ،افراتفری،ہیجان اور منفی رویے کی بدولت خبروں کی زد میں ہیں تو مریم نواز ان کو جواب دینے،تحریک انصاف کو ناکوں چنے چبوانے اور آئینی خلاف ورزی پر آئین کا دفاع کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔گزشتہ پیر کے روز سارا دن ایک اودھم مچا رہا کہ مہاتما عمران خان عدالت پیش ہونگے یا نہیں۔طرح طرح کی قیاس آرائیاں ،تجزیے اور تبصرے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے ۔وکلا عدالتوں میں کہہ رہے تھے کہ موصوف پیش ہونے کے لئے تیار ہیں ۔عملی صورتحال یہ رہی کہ لاہور ہائیکورٹ نے ایک دن میں انہیں چار بار طلب کیا اور وہ ہر بار غیر حاضر پائے گئے۔عدالت عالیہ نے اس بار الگ ہی عدالتی نظیر پیش کہ ہر بار ملزم کو پیش ہونے کے لئے وقت دیا کہ اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔شام تک ایک آپا دھاپی،ہیجان اور سنسنی رہی کہ عمران خان آ رہے ہیں،کبھی کبھی تو ایسا لگا کہ وہ اپنی جھوٹی انا کے اسیر ہیں اور جان بوجھ کر عشوہ و ادا اور کسی خوبرو حسینہ کی طرح نخرے دکھا رہے ہیں اور نہیں آ رہے۔خدا خدا کرکے وہ شام چھ بجے اپنے قلعے زمان پارک سے لاﺅ لشکر اور سکیورٹی کی گاڑیوں کے جلو میں کسی شہنشاہ کی طرح نکلے۔اس دوران جگہ جگہ ٹریفک جام،لوگ مشکلات کا شکار اور عملی زندگی معطل رہی۔پورا ملک اضطراب کا شکار رہا اور پی ٹی آئی والے سوشل میڈیا پر الگ الگ شگوفے چھوڑتے رہے۔کچھ مخصوص صحافی بھی عمران خان کی گڈی اڑانے میں آگے آگے رہے کہ مابدولت پیش ہو کر احسان کر رہے ہیں۔
قصہ مختصرکہ جو بھی ہوا کم از کم عدالتی وقار اور اعتبار میں اضافہ نہیں ہوا۔پاکستان کے شہری یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اگر قانون سب کے لئے برابر ہے،یقیناً قانون سب کے لئے ایک ہے،تو کیا دوسرے ملزموں کو بھی اسی طرح عدالت سہولت دے گی کہ ناز نخرے کی اجازت ملے گی۔عدالت نے ایک خاص حد سے بھی آگے جاکر موصوف کو رعایت اور سہولت دی۔پھر چشم فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ شہنشاہ گاڑی سے باہر نکلنے پر آمادہ نہ تھے۔وکلا بھاگم بھاگ گئے اور ایک الگ طرز کی درخواست دے ماری کہ حضور! جج صاحبان گاڑی میں ہی حاضری لگا لےں ۔شکر ہے کہ عدالت نے یہ فضول و مجہول درخواست فوری رد کر دی۔اس ساری لاحاصل مشق سے پورا ملک تعطل کی کیفیت میں رہا۔باشعور اور بالغ نظر لوگ حیران اور پریشان تھے کہ ریاست مدینہ کا دعوی کرنے والا آخر عدالت میں پیش ہونے سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے ؟ کیا وہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے ؟شاید گرفتاری کے ڈر سے حوصلہ نہیں پڑا کہ اتنے جھوٹ بولے اور چکر دیئے ہیں مبادا عدالت ضمانت منسوخ ہی نہ کر دے اور گرفتار کر لیا جاﺅں۔اللہ اللہ کر کے عمران خان کا ہیجان اور رومان ختم ہوا اور عدالت نے بھی کمال مہربانی اور شفقت سے جھٹ تین مارچ تک ضما نت منظور کر لی۔
اندازہ کیجئے کہ عدالت عالیہ کے روبرو ایک نمانے سے وکیل نے اعتراف کیا کہ درخواست ضمانت پر عمران خان کے دستخط جعلی ہیں۔عمران خان نے قدم رنجہ فرمانے کے بعد لاہور ہائیکورٹ سے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کی حفاظتی ضمانت کی پہلی درخواست ان کے دستخط اور منظوری کے بغیر فائل کی گئی تھی۔اس سے قبل جب وہ ہائیکورٹ پہنچے تو ان کے ہمراہ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن بھی موجود تھے جس کے باعث ان کی عدالت تک رسائی کافی تاخیر کا شکار ہوئی۔ واقفان حال اور اندرونی ذرائع کی خبر یہ ہے کہ اصل میں مابدولت پیش نہیں ہونا چاہتے تھے۔ لیکن جب عدالت کے تیور اور ریمارکس دیکھئے تو پیشی میں ہی عافیت جانی۔ پھر پی ٹی آئی کے آفیشل اکاﺅنٹ سے دھڑا دھڑا اپیلیں کی گئی کہ لوگ زمان پارک پہنچیں چیئرمین صاحب عدالت میں پیش ہونے والے ہیں۔ یوں لوگوں کی ایک تعداد اکھٹی کی گئی تاکہ کچھ رعب داب رہے اور عزت کہیں خاک میں نہ مل جائے۔کمرہ عدالت میں ضمانت کی درخواست اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کے لیے موصوف پیش ہونے لگے تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو بیٹھا رہنے دیں۔ جسٹس طارق سلیم نے سوال کیا کہ خان صاحب، آپ کی درخواست پر دستخط مختلف ہیں۔ عمران خان نے جواب دیا کہ پہلی ضمانت میرے دستخط اور منظوری کے بغیر فائل ہوئی تھی جس پر میں ’رگریٹ‘ کرتا ہوں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے تنبیہ کی کہ آپ کو احتیاط کرنی چاہیے۔ عمران خان نے کہا پہلی درخواست کے بارے میں جب پتہ چلا تو میں نے اسے واپس لینے کا کہا۔
جب یہ ساری سرکس جاری تھی تب ایک اور چال چلی گئی،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو صوبائی انتخابات کی تاریخ کا اعلان داغ ڈالا۔بس پھر کیا تھا ایک بھونچال آ گیا کہ عمران خان نے عارف علوی سے ایک بار پھر غیر آئینی اقدام کرا ڈالا ۔ایوان صدر کے مطابق صدر عارف علوی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن57 ایک کے تحت 9 اپریل بروز اتوار کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے۔ صدارتی خط میں الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ الیکشن کا پروگرام جاری کرے۔ عارف علوی نے خط میں لکھا کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرکے میں نے اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کیا ہے۔اب قانونی ماہرین سر پیٹ رہے ہیں کہ صدر صوبائی انتخابات کی تاریخ کے اعلان کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتا۔سو ایک بار پھر عمران خان اور ان کا طرز عمل ملک و قوم کےلئے ایک لاینحل مسئلہ بن چکا ہے۔