
سیاسی اور معاشی بحران گہرا ہو رہا ہے
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)
اس میں اب کوئی ابہام یا کلام نہیں رہا کہ پاکستان ایک سنگین اور شدید بحران میں گر چکا ہے۔ایک جانب سیاسی بحران ہے جو لمحہ لمحہ گہرا ہو رہا ہے اور دوسری طرف معاشی بحران ہے جو لحظہ لحظہ خوفناک ہو رہا ہے۔سیاسی بحران تمام مسائل کی ماں ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت بھی غریب کی معیشت کی طرح سسک رہی ہے۔بحران در بحران پاکستان کے در پر دستک دے رہا ہے اور اس کا کوئی موزوں اور مفید حل دکھائی بھی نہیں دیتا۔تاریکی اور اندھیرا اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ رجائیت پسند بھی اب امید باندھنے سے کتراتے ہیں۔بڑے بڑے امید پسند ہیں جن کے دماغوں میں وسوسے ،خدشے اور وہمے کسی سانپ کی طرح پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔کوئی امید بر نہیں آتی ،کوئی روشنی کہیں نظر نہیں آتی اور کہیں بھی کوئی دیا جلتا دکھائی نہیں دیتا۔حکومت اتنی کمزور ہے کہ پتہ بھی کھڑکے تو لرز اور سہم جاتی ہے۔اسے تو اپنے بچاﺅ سے فرصت نہیں ملتی کجا یہ سیاسی اور معاشی بحران پر قابو پائے اور ملکی ناﺅ کو ساحل پر لے جائے۔
پاکستان ایک ایسے خوفناک مرحلے اور خطرناک منطقے میں داخل ہو چکا ہے کہ بس اب اللہ ہی اللہ ہے۔ہماری ملکی تاریخ میں کبھی اتنے کم زر مبادلہ کے ذخائر نہ تھے جتنے آج ہیں۔ڈھائی ارب ڈالر کی آخر اہمیت اور اوقات کیا ہے ؟اتنے ڈالر تو ان گنت اور بے شمار شہریوں کے اپنے اپنے نجی اکاﺅنٹ میں پڑے ہیں۔بھلا ایک امیر اور مالدار آدمی کی ذاتی دولت سے بھی ہمارے سٹیٹ بنک کے ذخائر کیسے کم ہوگئے؟یقین جانیئے اگر یہی صورتحال رہی تو دو ماہ بعد حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہونگے۔تنخواہوں کی بات الگ سرکاری ملازمین کی پنشن ایک الگ اور پہاڑ جیسا مسئلہ ہے۔ سیاست اور معیشت میں ایک جانب عمران خان استحکام نہیں آنے دے رہے اور رہی سہی کسر حکومت کی بزدلی پوری کررہی ہے۔حکومت جم کر یا ڈٹ کر سیاسی انتشار اور افراتفری کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر ہے ۔اسی لیے شرپسند عناصر شیر بنے کھڑے ہیں اور مسلسل حکمرانوں کو للکار رہے ہیں ۔سیاسی استحکام ہو گا تو حکومت سکون و اطمینان سے معیشت کی بہتری کے لئے کچھ کر سکے گی ورنہ جوتم پیزار اور دھکم پیل کے ماحول میں بے یقینی اور خوف کے سائے ہی رہیں گے۔عمران خان حکومت کو اکھاڑنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں اور جواب میں حکمران مردہ دلی اور نیم جاں طریقے سے مزاحمت کررہے ہیں۔
صدر عارف علوی نے انتشار و افتراق اور ہیجان و احتجاج کو گہرا کرنے میں سب سے زیادہ اور بڑا کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے ملک کے صدر ہونے کا نہیں تحریک انصاف کے ایک ورکر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔جب سے انہوں نے خود ہی بیٹھے بٹھائے حکومت کی اجازت کے بغیر پنجاب اور پختونخوا میں صوبائی انتخابات کا اعلان کیا ہے ،تب سے اب تک عمران خان ہٹ ہٹ کر اور آگے بڑھ بڑھ کر حکومت پر وار کررہے ہیں۔حکومت بکری کی طرح منمنا رہی ہے اور بچاﺅ کے لئے مری مری آوازیں نکال رہی ہے ۔اب معاملہ سپریم کورٹ میں آن پہنچا ہے اور اس کا فیصلہ اکثر لوگوں کو پہلے سے ہی معلوم ہے۔چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے سے پتہ چلتا ہے کہ عدالت اب چھری تیز کررہی ہے اور وہ جلد یا بدیر حکومت کے گلے پر پھیر دے گی کہ لو الیکشن کراﺅ۔عمران خان روز اپنے قلعے زمان پارک میں بیٹھ کر ویڈیو لنک خطاب کرتے ہیں اور اپنی بے تکی ہانکتے رہتے ہیں۔انہوں نے بے سبب نہیں کہا کہ یہ جو مرضی کر لیں حکومت تو ہماری آنی ہے اور اس بار یہ نہیں بچیں گے۔سو سوالوں کا ایک سوال یہ کہ عمران خان کو اندھا یقین کیوں ہے کہ حکومت اسی کی آنی ہے ۔اف خدایا ساغر صدیقی کب یاد آیا:
بے وجہ نہیں ہیں چمن کی تبا ہیاں !
کچھ باغباں ہیں برق و شرر سے ملے ہوئے
سیاسی عد م استحکام نے پورے ملک کو ڈبو کر رکھ دیا ہے لیکن تحریک انصاف والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔وہ تو چاہتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو جائے اور یہ حکومت ناکام ہو جائے اور ذلت و رسوائی اس کا مقدر بنے۔تحریک انصاف والے جو کررہے ہیں اس سے حکومت کی مشکلات میں تو اضافہ ہو ہی رہا ہے لیکن معیشت کی بھی چولیں ہل رہی ہیں۔عمران خان کی ضد اور حب جاہی کی خواہش کے نتیجے میں معاشی طوفان ملکی فصیلوں سے ٹکرا رہا ہے اور سیاسی آندھی کا جھکڑ چل رہا ہے۔اس اضطراب اور آپا دھاپی میں منہ زور مہنگائی اور بڑھ رہی ہے اور غریب عوام کو بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ آخر کریں تو کیا کریں۔کھائیں کیا اور پئیں کیا،جیئں کیسے اور مریں تو کیسے ۔اب تو مردوں کا کفن بھی اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ غریبوں کے مردے شاید بے کفن ہی دفن کئے جائیں گے۔اوپر سے وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ کہہ کر غریبوں کو زندہ درگور کر دیا ہے مہنگائی اور بڑھے گی۔گویا حکومت کو خود دلچسپی نہیں کہ وہ رہے نہ رہے البتہ مہنگائی رہے۔اگر سیاسی اور معاشی بحران اسی طرح گہرا ہوتا رہا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔حکومت تو نہیں بچے گی لیکن عمران خان بھی نہیں بچیں گے۔کوئی اٹھے اور ان سب کو سمجھائے کہ حضور آپ کی انا اور انتقام میں عوام تو مر ہی رہے ہیں ملک کی سالیمت بھی داﺅ پر لگنے چلی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک بپھرا ہوا سونامی آئے اور وہ سب کچھ بہا کے لے جائے۔سیاست بچے نہ معیشت،عدالت بچے اور نہ فوج۔ رہے نام اللہ کا!