اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

عمران خان بھی مکافات عمل کا شکار !

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)

 

گماں گزرتا ہے اب مکافات عمل کی چکی چل پڑی ہے اور وہ عمران خان کو باریک پیستی جاتی ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین جب وزارت عظمیٰ کے تخت پر بیٹھے تھے تب وہ اقتدار کے زعم میں گم تھے اور آسمان کو چھونا چاہتے تھے۔وہ آسمان چھونے کے شوق میں یہ بھول گئے کہ اس طرح تو پاﺅں زمین سے اکھڑ جاتے ہیں۔جب پاﺅں زمین سے اکھڑتے ہیں دھرتی آنکھیں پھیر لیتی ہے تو پھر کچھ نہیں بچتا ،آسماں تو خیر پہلے ہی کج رفتار مشہور ہے۔عمران خان پر اریب قریب اس وقت 70 سے زائد کیس ہیں اور زیادہ تر کرپشن اور چوری کے ہیں۔توشہ خانہ کیس کیا ہے ؟ فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟ پشاور مالم جبہ کیس کیا ہے ؟ فارن ایکٹ بنکنگ کیس کیا ہے ؟ شوکت خانم فنڈنگ انکوائری کیا ہے ؟ زمانے کے رنگ دیکھئے کہ جنہیں عمران خان چور اور ڈاکو کہتے نہیں تھکتے تھے، ان کے خلاف تو کچھ نہیں نکلا ، استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا اور وہ عدالتوں سے با عزت بری ہو رہے ہیں۔اور عمران خان ؟ جی ہاں وہ آج کل چیخ رہے ہیں ،عدالتوں سے بھاگ رہے ہیں،گرفتاری کے خوف سے کارکنوں اور خواتین کو ڈھال بنا رہے ہیں۔آخر کب تک ؟ آخر کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی۔ایک نہ ایک دن اسے چھری کے نیچے آنا ہو گا۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کو آئندہ تاریخوں پر عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا ورنہ انہیں عدالتوں میں پیش کردیا جائے گا،پولیس ٹیم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری لے کر لاہور گئی تو پی ٹی آئی نے بڑا ڈرامہ کیا، اگر پولیس نے انہیں گرفتار کرنا ہوتا تو برگر کارکن رکاوٹ نہیں بن سکتے تھے،پولیس اس مقصد سے گئی تھی کہ انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا جائے، انہوں نے آگے سے اپنی روایت کے مطابق نئے نئے ڈرامے شروع کردیے جو رات تک جاری رہے،عمران خان کے خلاف کئی چیزیں واضح ہیں، عدالتوں میں جواب دینا پڑے گا،جس دن عمران خان کو گرفتار کرنا اور عدالت میں پیش کرنا ہوا اس دن پیش کردیا جائے گا، عدالت اسے بری کردے تو ہم تسلیم کر لیں گے اور اگر عدالت سزا دیتی ہے تو پھر یہ سزا بھگتے،عمران خان کو دوسروں کو سزائیں دلانے کا تو بڑا شوق تھا، اب اپنی باری آئی ہے توروتا ہے۔ دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی مصرع پر کمال گرہ لگائی ہے۔انہوں نے کیا خوب کہا ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے سے اچھا ہے کہ انہیں بھگائیں،سیاسی بزدلی سے حکومت کو فائدہ ہے۔غیر جانبدار مبصر اور تجزیہ نگار عمران خان کی گرفتاری ،مسلسل اور پے درپے ضمانتوں سے لطف لے رہے ہیں کہ اب اونٹ پہاڑ تلے آیا ہے ،بس چپ کر کے تماشا دیکھو۔

مکافات عمل شروع ہوا تو ان کے سائے بھی ساتھ چھوڑنے لگے ہیں۔ اور تو اور ریٹائر چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی ان سے برات کا اعلان کر دیا ہے۔ سابق قاضی القضا ثاقب نثار نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عمران خان کو مکمل اور تمام معاملات پر صادق و امین قرار نہیں دیا تھا، میرے سامنے جو مقدمہ تھا، میں نے اس کیس میں صادق و امین کہا تھا بس، عمران خان کے باقی معاملات کا مجھے کچھ نہیں پتا،میں بھی انسان ہوں، مجھ سے بھی کچھ غلط فیصلے ہوئے ہوں گے، مانتا ہوں مجھے عمران خان نے دو ہفتے پہلے فون کیا تھا اور اپنے کیسوں میں مجھ سے مدد مانگی ،میں نے معذرت کر لی کہ میں اب کچھ نہیں کر سکتا،مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں میں لابنگ کررہا ہوں ،میں بھلا کیوں عمران کے لئے لابنگ کروں گا، کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ نواز شریف کو نااہل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔قصہ مختصر اب ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ عمران خان پر زمین تنگ ہوتی جائے گی ۔ان کے کچھ سہولت کار ریٹائر ہو چکے اور کچھ عوامی دباﺅ کے کے پیش نظر پیچے ہٹ چکے ہیں۔اب آگے کنواں ہے اور پیچھے کھائی،سو انہوں نے جو بویا ہے اب وہ انہیں کاٹنا تو پڑے گا۔

اب کپتان کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ہر بار جتھے لے کر عدالت کی چوکھٹ پر جائیں۔ نہ ہی ہر بار ان کے لئے ممکن ہو گا کہ وہ پولیس کو گرفتاری نہ دیں۔پی ٹی آئی کے کارکنان بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ہم اور ہمارا لیڈر کر کیا رہا ہے۔آنے والے دن کڑے اور راتیں مزید کالی ہوں گی اور ہر گزرتا لمحہ عمرا ن خان کے اعصاب پر سوار ہو گا کہ اب گرفتاری ہوئی کہ اب پکڑا گیا۔یہ نوشتہ دیوار ٹھہرا کہ جلد یا بدیر تحریک انصاف کے چیئرمین کو گرفتار ہونا اور اپنے مقدمات کا سامنا کرنا ہے۔عبرت والوں کے لئے تو مکافات عمل بڑا سبق آموز ہوتا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوں انہیں نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی سنائی۔وقت کی چاپ اگر عمران خان سنتے تو جب وہ اقتدار میں تھے ،تب جوش نہیں ہوش،طیش نہیں تحمل اور بدمعاشی نہیں نرمی سے کام لیتے۔لیکن انہوں نے اس کے بر عکس کیا۔اپنے تمام سیاسی مخالفوں کو جیل میں ڈالا،جھوٹے مقدمات بنائے،نیب پر دباﺅ ڈال کر انہیں نا حق سزائیں دلوائیں۔بات بات پر الزام تراشی کی،سیاسی حریفوں کی پگڑیا ں اچھالیں اور ان کو گستاخ ناموں سے پکارا۔حد یہ کہ انہوں نے پوری نوجوان نسل کا ہی اخلاق بگاڑ ڈالا، اسی وجہ سے سماج اضطراب کی گرفت میں آچکا ہے ۔وقت کا پہیہ اب الٹ گھوم چکا ہے اور جزا و سزا اور سچ و جھوٹ کا فیصلہ ہونے میں اب زیادہ دیر نہیں رہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button