اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

کیاتحریک انصاف ہر معاملے میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی پالیسی پر گامزن ہے!!

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

تحریک انصاف ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے
تحریر:ارشدمحمودگھمن

 

اردو ادب کے لافانی شاعر اور ہر عہد پر غالب مرزا اسداللہ خان غالب نے کیا کمال کہا تھا :

یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

اگر کپتان یونہی انتشار و فساد،جلاﺅ گھیراﺅ،دھمکی و تشدد اور رعونت و بغاوت پر آمادہ رہے تو آپ دیکھنا کہ نہ عام انتخابات ہوںگے اور نہ ہی ملکی معیشت میں بہتری آ سکے گی۔اب یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ اگر ملکی معیشت بہتر نہ ہوئی تو مہنگائی کم ہوگی اور نہ ہی بے روزگاری میں کوئی کمی آئے گی۔اگر کپتان یونہی روتے ،چلاتے ،چیختے،مارتے دھاڑتے اور چنگاڑتے رہے تو کون سے الیکشن اور کہاں کی نئی حکومت۔اگر یونہی عدالتیں لاڈلے کو ریلیف دیتی رہیں تو کون سا انصاف اور کہاں کا عدل۔اگر حکومت یونہی کسی دوسرے سانحہ ماڈل ٹاﺅن سے ڈرتی اور سہمتی رہی تو کہاں کا امن وامان اور کہا ں کا سیاسی استحکام۔اگر عوام یونہی بے یقینی،ناامیدی اور لاچاری و بے بسی کی تصویر بنے رہے تو کیسا عوامی شعور اور کہاں کی جمہوری حکومت۔غرض یہ کہ اگر شب و روز یونہی بیتتے رہے اور یونہی دن چڑھتے اور راتیں اترتی رہیں تو کہاں کی صبح صادق۔رونے دھونے سے مردے زندہ نہیں ہوتے اور نہ ہی بین ڈالنے،سینے پر ہتھڑ مارنے سے سکون و اطمینان ملتا ہے۔

عام انتخابات کرانے کے ضمن میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گو بیک ڈور رابطے اور مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ بہت سے سوالات بھی جڑے ہیں کہ آیا ایسے خون ریز اور جلاﺅ ،گھیراﺅ کے ماحول میں الیکشن ہو سکتے ہیں؟ایک جانب عمران خان فوری الیکشن مانگتے ہیں اور اگلے ہی سانس میں وہ احتجاج و انتشار اور ہیجان و افراتفری کے لئے اپنے کارکنوں کو کال بھی دیتے ہیں۔یہی رویہ ہے جس کی وجہ سے حکومت بھی الیکشن پر تاحال یکسو ہو نہیں سکی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کی خواہش ہے کہ ایک بار امن آئے تاکہ وہ سکون سے بجٹ پیش کر سکے ،عالمی دنیا سے سیلاب پر امداد کے جو وعدے ہو ئے ہیں،وہ پیسے جمع کر سکے ،آئی ایم ایف سے ڈیل مکمل کر ے اور پھر عوام کو کچھ ریلیف دے تاکہ انتخابات میں جا سکے۔لیکن عمران خان ہیں جو یہ ہونے نہیں دے رہے اور ایک ہی سانس میں سرد وگرم پھونکے مار رہے ہیں۔وہ کبھی کہتے ہیں پہلے پنجاب اور پختونخوا میں الیکشن کراﺅ اور پھر قومی اسمبلی کے انتخابات کرائے جائیں۔جبکہ حکمران ایک ہی بار تمام اور عام انتخابات کا ڈول ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ سے مسلم لیگ ن نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب اور پختونخوا میں انتخابات کروانے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے، یہ فیصلہ عجلت میں دیا گیا ہے ۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے ہم ہر وقت الیکشن کے لئے تیار ہےں ، حکومت الیکشن کرانے والے اداروں کے فیصلے کی پیروی کرے گی۔ وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کا دوبارہ جائزہ لےں، امید ہے دونوں ادارے ملکی مفاد اور معیشت کے تناطر میں اس پر غور کریں گے۔آگے چل کر نارووال کے سپوت نے کہا اگر پنجاب اسمبلی کے الیکشن ابھی کرائے گئے اور قومی اسمبلی کے الیکشن 6 ماہ بعد کرائے گئے تو مستقل ایک سائیکل بن جائے گی، جس پارٹی کی پنجاب میں حکومت ہوگی وہ اپنے وسائل قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرے گی، دیگر صوبے بے یار و مددگار یہ سب دیکھتے رہیں گے، اس کی ملک کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور ملک کی بنیادیں متاثر ہوں گی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے بھی کہا کہ وہ ایسی صورتحال میں اپنی اتھارٹی استعمال کرے، عمران خان کو گرفتار کرنا حکومت کی ترجیح نہیں، زمان پارک میں پیدا شدہ صورتحال کے ذمہ دار وہ خود ہیں، کھلم کھلا لاقانونیت کے اقدام کوئی سیاسی جماعت نہیں کرتی، عمران خان وہ کام کررہے ہیں جو مسلح گروہ کرتے ہیں، ایسے میں انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں ؟ حکومت عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن عمران خان مذاکرات سے پہلے عدالتی احکامات پر عمل کریں، انتخابات سے پہلے ن لیگ کے ساتھ زیادتی کا ازالہ بھی کیا جائے۔

بتایئے ناں صاحب ایسی صورتحال میں امن کیسے ممکن ہو ؟ اگر امن نہیں ہو گا تو ملکی معیشت کیسے سدھرے گی ؟ سرکاری خزانے میں پیسے نہیں ہونگے تو الیکشن کے اخراجات کہاں سے آئیں گے؟یہ وہ گتھی ہے جو حکومت تو سلجھانا چاہتی ہے مگر پی ٹی آئی اسے اور الجھا رہی ہے۔آج کل تحریک انصاف ہر معاملے میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی پالیسی پر گامزن ہے۔وہ آگ لگا کر ،اپنے کارکنوں کو اشتعال دلا کر یا پھر ملکی اداروں پر حملے کر کے کیسے انتخابات کرا سکتی ہے؟کانٹے بوکر پھول توڑنے کی تمنا کوئی پاگل یا ذہنی مفلوج شخص تو کر سکتا ہے کوئی ذی شعور یا عقلمند آدمی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔کبر و نخوت اور سرکشی و بغاوت سے جھگڑا طول تو پکڑ سکتا ہے لیکن قول فیصل نہیں ہو سکتا۔ہرروز پھڈا بازی ،کھینچا تانی اور پرخاش و پیکار سے صلح یا امن کے کنول نہیں کھل سکتے۔ کیکر کے شجر سے بھلا انگور کے گچھے کیسے توڑے جا سکتے ہیں؟آنکھیں دکھا اور گلا دبا کر بھلا کسی سے بھی مطالبہ کیسے منوایا جا سکتا ہے ؟انقلابی شاعر حبیب جالب نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا:

مرے وطن کو خون سے دھو رہے ہو
محبت کو نفرت سے بو رہے ہو

گماں ہے تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین ہے مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button