اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

سپریم کورٹ خو د اپنے کردار کا محاکمہ کرے

Chief executive ,Arshad mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)

 

 

اب تیرکمان سے نکل چکا ہے،بندوق داغی جا چکی اور زبان سے بات با ہر آچکی ہے۔اب واپسی نہیں، زمانے اور سماج کا یہی دستور ہے کہ ارتقا کا پہیہ آگے کی جانب چلتا ہے پیچھے کی طرف نہیں۔پاکستان کی پون صدی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو ا کہ کچھ ججز نے غلط اور من پسند انصاف کے خلاف تحریری طور پرگواہی دی ہے۔اب بات فل کورٹ یا الیکشن والے ازخود نوٹس تک محدود نہیں رہی۔عوام کے منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس کا ظالمانہ،مجنونانہ اور انتقامانہ فیصلہ خود واپس لینا پڑے گا ورنہ عدلیہ کی پیشانی پر دھبہ باقی اور برقرار رہے گا۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی خیر ہو کہ ان کے کردار کی بدولت عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کے برستی رہے گی۔ان دونوں ججز نے جرات و جوانمردی سے آواز اٹھائی ہے کہ وقت آ گیا ہے چیف جسٹس کے ون مین شو اختیارات کا جائزہ لیا جائے۔اس سے قبل اسی کیس میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحی آفریدی بھی بالکل ایسے ہی خیالات اور آرا کا اظہار کر چکے ہیں۔حیرت اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ پوری سپریم کورٹ کی عصمت پر حرف آ رہا ہے اور ذمہ داران آگے بڑھ کر خود معاملہ سلجھاتے نہیں۔عدالت عظمی کو چاہئے خو د ہی اپنے ادارے کے کردار کا محاکمہ کرے ۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے ضمن میں عدالت عظمی کے ازخود نوٹس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنا اختلافی نوٹ جاری کیا ہے۔ دونوں ججز نے اپنے تحریری نوٹ میں کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے اور سپیشل بنچ بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی اور اس کی عزت و تکریم میں کمی ہوتی ہے۔28 صفحات پر مشتمل دو ججز کے مذکورہ نوٹ میں کہا گیا کہ ازخود نوٹس کے فیصلے کو چار ججز نے مسترد کیا، از خود نوٹس اور بنچوں کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے ون مین شو اختیارات پر فل کورٹ نظر ثانی کرے،جب ایک شخص کے پاس بہت زیادہ طاقت ہو تو ادارے کا آمرانہ بننے کا خدشہ ہوتا ہے، ون مین شو اختیار پر نظر ثانی ضروری ہے کیونکہ اس سے نقطہ نظر متنوع نہیں رہتا جبکہ طاقت کی مرکزیت اور آمرانہ حکمرانی کے امکانات بڑھتے ہیں،یہ صحیح وقت ہے ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے، چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا،ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں۔

با شعور اور باخبر لوگ قیاس کریں کہ چیف جسٹس کے اختیارات اور ان اختیارات کے استعمال پر ان کے ساتھی ججز خود چیخ اٹھے ہیں۔اس سے معاملے کی سنگینی اور شدت کا احسا س ہوتا ہے۔خصوصا نواز شریف کےخلاف پانامہ فیصلے پر اول روز سے خدشات،شکوک اور شبہات پائے جاتے رہے کہ پانچ ججز نے دباﺅ میں آکر یہ غلط فیصلہ دیا ہے۔پھر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے مرنے سے پہلے خود اس کا اقرار اور اعتراف بھی کیا ہے کہ ان پر دباﺅ ڈال کر یہ انتقامی فیصلہ لیا گیا ہے۔گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس نسیم شاہ کا ایک بیان حلفی بھی دوسری موثر اور مضبوط گواہی دے چکا ہے کہ کیسے اس وقت کے ایک سا بق قاضی القضا کس طرح نواز شریف کے خلاف فیصلہ لینے کے لئے دوڑ لگاتے رہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک تیسرے جج شوکت عزیز صدیقی جنہیں سپریم جوڈیشل کونسل نے جبری بر طرف کر دیا تھا، ان کی اسلام آباد بارکونسل میں کی گئی تقریر بھی آج عدالتی تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہے۔یہ سب گواہیاں باہر سے نہیں عدالتوں کے اندر سے چھن چھن کر آئی ہیں کہ کس طرح ہماری اعلی عدلیہ میں کچھ خائن قاضی بیٹھے ہیں جو پلاٹ اور پیسے لے کر اپنی عاقبت اور عدالت کی تاریخ تباہ کررہے ہیں۔

اسی مذکورہ اختلافی نوٹ بلکہ فیصلے میں جوکہ جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کر دہ ہے،اس میں تجویز دی گئی ہے کہ از خود نوٹس کی کاروائی، ریگولر اور سپیشل بنچوں کی تشکیل کے اختیارات کے حوالے سے ایک بنیادی نظام موجود ہونا چاہیے جسے آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت تمام ججز کی منظوری حاصل ہو، تین کے مقابل چار ججز نے آئینی درخواستوں پر از خود نوٹس کی کاروائی مسترد کر دی تھی،ایک بار کیس کے لیے بنچ بن جائے اور کاز لسٹ جاری ہوجائے تو چیف جسٹس اس کی تشکیل نو نہیں کرسکتے۔۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے آگے چل کر اپنے اسی فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائیکورٹس میں کیس زیرِ التوا ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا، ہم دونوں ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے23 فروری کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں۔سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں موجود اضطراب بتاتا ہے کہ ہماری اعلی عدالتیں ایک دوراہے پر آن کھڑی ہیں۔کچھ غلط منصفوں اور بعض خائن قاضیوں نے عدالتی تاریخ میں اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اب سپریم کورٹ خود اپنے فیصلوں پر ازسر نو نظر ثانی کرے۔عدل و انصاف اور دستور کی کسوٹی پر متنازع فیصلوں کو پرکھا اور جانچا جائے،جو فیصلہ غلط اور آئین سے متصادم ہو اسے بلا جھجھک رد کر دیا جائے۔اس ضمن میں ذوالفقار بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی کے کیس سپریم کورٹ کو اس بحران سے نکال سکتے ہیں۔عدالت عظمی کو چاہئے کہ متناز ع ججوں کو چھوڑ کر باقی سب ججز پر مشتمل فل بنچ بنایا جائے اور حساس اور اہم فیصلوں کا دوبارہ تنقیدی جائزہ لیا جائے اور ان فیصلوں کا از خود عدالتی محا سبہ کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button