اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

لیگی کارکنان اپنے نمائندوں سے نالاں

Chief executive, Arshad Mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر:ارشدمحمودگھمن)

 

مسلم لیگ ن خواب خمار میں ہے اور بستر مدہوش پر لیٹی پڑی ہے۔اسے اندازہ ہی نہیں کہ سیاسی صورتحال وہ نہیں جو بظاہر نظر آتی ہے۔اقتدارکی راہداریوں کی خبر پانے والوں کا کہنا ہے کہ قریبی لیگی حلقے اس زعم میں مبتلا ہیں کہ عمران خان کے افسانے کے بعد اب راستہ صاف ہے۔ اقتدار پکے پھل کی طرح جھولی میں گرتا دیکھ کر شاید مسلم لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ آصف،سعد رفیق،رانا ثنا اللہ ،رانا تنویر حسین ،خرم دستگیر اور دوسرے لیڈر اب اپنے کارکنوں کو نظر انداز کرنے لگے ہیں۔اس کے باوجود کہ عام انتخابات اب چند ماہ کی دوری پر کھڑے ہیں لیکن پھر بھی لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے اپنے حلقوں میں عوامی کچہریا ں نہیں لگا رہے۔کارنر میٹنگیں،جلسے جلوس اور عوامی اجتماعات منعقد ہوتے کہیں دکھائی نہیں دیتے۔گزشتہ دنوں سانحہ نو مئی کے خلاف اور فوج سے اظہار یکجہتی کے لئے ملک بھر میں جو ریلیاں نکالی گئیں،اس میں بھی لیگی متوالے اور نواز شریف کے جیالے بہت کم کم نظر آئے۔اور تو اور لاہور لبرٹی چوک میں یوم تکبیر پر مریم نواز نے بھی جو جلسہ عام کیا ،وہاں بھی قابل ذکر یا باعث فخر عوام کا ہجوم نہ تھا۔بس گزارے لائق لوگ تھے اور ان میں بھی کوئی جو ش وخروش پایا نہیں جاتا تھا۔

مسلم لیگ کے اندرونی حلقے تائید اور تصدیق کرتے ہیں کہ اب پارٹی کو اقتدار مل کے رہے گا۔اسی وجہ سے عام لیگی کارکنان کا کوئی پرسان حال نہیں۔انہیں کوئی پوچھتا نہیں،ان کے ناز نخرے کوئی اٹھاتا نہیں اور ان کے جائز کام بھی کوئی عوامی نمانئدہ کرتا نہیں۔ہر عہد پر غالب مرزا اسداللہ خان غالب نے اسی تناظر میں کیا خوب کہا تھا:

اگر تو یونہی روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا تم ان بستیوں کو کہ ویران ہو گئیں

کہیں ایسا نہ ہو کہ عام انتخابات میں مسلم لیگ کے شہر کے شہر ،نگر کے نگر، گلیوں کی گلیاں اور حلقے کے حلقے یونہی سنسان اور ویران پڑے ہوں۔اس لیے مسلم لیگ کے تمام لیڈروں اور عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ ابھی سے وہ اپنے کارکنوں ، ووٹروں اور سپورٹروں کی قدر کریں۔مسلم لیگ کے عوامی نمائندوں کا اپنا نجی ووٹ بنک بھی ہو گا لیکن انہیں ووٹ نواز شریف کے نام پر ہی پڑتے ہیں۔اس لحاظ سے بھی مریم نواز کو اس پر آشوب صورتحال کا نوٹس لینا چاہئے۔مریم نواز کو نکال دیجئے ،ان کے علاوہ کوئی اور لیگی لیڈر نہیں جو عوام کو باہر نکال سکے۔ویسے بھی پی ڈی ایم کو اقتدار ملے کافی وقت بیت چکا لیکن عوام کو کوئی ریلیف،رعایت یا سہولت نہیں ملی۔

مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عام لوگ اپنی پارٹی سے خفا خفا،نالاں اور دور دور رہنے لگے ہیں۔اوپر سے ان کے اپنے ایم این اے اور ایم پی اے اقتدار آتا دیکھ کر آپے سے باہر ہو چکے ہیں کہ آگے بھی ہم نے ہی آنا ہے۔ہمارے کارکنوں نے کدھر جانا ہے اور یہ ووٹ ہمارے سوا کسی کو نہیں دیں گے۔یہی خام خیالی اورنفسیاتی کجی ہے جس میں مسلم لیگ مبتلا ہو چکی ہے اور وہ اپنی پارٹی کی ضلعی اور تحصیل کی سطح پر تنظیم نو نہیں کر پائی۔جب یقین اندھا اور اعتماد حد سے بڑھ جائے تو ایسا دھچکا اور دھکہ لگتا ہے کہ انسان بلبلا اور کلبلا اٹھتا ہے۔خاکم بدہن ! کہیں ایسا نہ ہو لیگی لیڈروں کی یہ بے اعتنائی اور حد سے گزری بے نیازی اسے لے ڈوبے۔لاہور سے باہر نکلیئے اور اسلام آباد جایئے اور راستے بھر میں سروے کرتے جایئے۔ پھر آپ کو پتہ لگے گا کہ حقیقی اور اندرونی صورتحال کیا ہے۔راقم الحروف کا اس راستے پر آنا جانا لگا رہتا ہے اس لئے وہ دوسروں سے زیادہ با خبر ہے۔گوجرانوالہ،گجرات،کھاریاں،جہلم،حافظ آباد،وزیر آباد، نارووال،سیالکوٹ،شیخوپورہ، قصور،فیصل آباد اور راولپنڈی تک۔۔۔۔۔اکثر عام لوگ اپنے لیگی نمائندوں کی صفت و ثنا بیاں کرتے مطلب کوستے نہیں تھکتے۔یہاں پوری پٹی ہے جو لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز سے تنگ ہے کہ ہمارے نمائندے ووٹ لیکر اسمبلیوں میں تو پہنچ جاتے ہیں مگر پھر ہمارے کام کرتے ہیں نہ بات سنتے ہیں۔

کوئی جائے اور جا کر مریم نواز کو بتا ئے کہ لیگی کارکنان اپنے نمائندوں سے شاکی ہیں اور پیٹھ پیچھے ان کی برائی کرتے ہیں اور بڑی بری طرح برائی کرتے ہیں۔اگر یہی عوامی منظر اور سیاسی صورتحال رہی تو اس کا سرا سر فائدہ پیپلز پارٹی لے اڑے گی۔جو بچھے کچھے ووٹ ہیں وہ تحریک لبیک،جماعت اسلامی یا دوسری مذہبوں جماعتوں کے پاس چلے جائیں گے۔یہ الگ بات کہ مذہبی یا علاقائی جماعتیں جیت نہیں سکتیں لیکن وہ کسی بڑی پارٹی کی ہار کا سبب ضرور بن جاتی ہیں۔ اس کے برعکس دوسری جانب صورتحال بڑی ہنگامہ خیز اوردھماکہ آمیز ہے۔بالائی پنجاب میں مسلم لگ کا ووٹ بنک اگر سکڑ رہا ہے تو جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی چھائی جاتی ہے۔اس کے جھنڈے گاڑے جا رہے ہیں،ترانے گائے جا رہے ہیں اور پھریرے لہرائے جا رہے ہیں۔رحیم یار خان کے مخدوم احمد محمودکو لیجئے جو پیپلز پارٹی کو سیاسی طاقت بنانے کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ابھی حال ہی میں آصف زرداری سے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی پی ٹی آئی کے رہنماو¿ں نے ملاقات کی ہے اور پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ آصف زرداری نے تحریک انصاف کے منحرف لوگوں کو خوش آمدید کہا اورکپتان کی طرحاپنا مفلر بھی پہنایا ہے۔رحیم یار خان، بہاولپور،مظفر گڑھ ،راجن پور ،بہاولنگر،میانوالی ،اوکاڑہ اور خانیوال سے کئی مقامی لوگوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیارکی ہے۔ یہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال مسلم لیگ کے لئے الارمنگ اور وارننگ ہے کہ اگر قیادت نے اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے کان نہ کھینچے تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔کئی الیکٹ ایبل ہار گئے تو مسلم لیگ کی حکومت کا راستہ کھوٹا یا لمبا بھی ہو سکتا ہے بابا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button