
حقیقت/تحریر:ارشدمحمودگھمن)
سیاست کے مرد حر اور مرشد آصف زرداری نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ ہر بحران میں سرخرو ہو کر نکلے اور سرفراز ٹھہر ے۔ اس بوڑھے سیاسی بازی گر اور شوخ سیاستدان کو سب کو اپنانے کا ہنر اور جادو آتا ہے۔ پا کستان کی سیاست میں تین اہم شخصیات اپنے تجربے،سوچ،فراست،ذہانت اور معاملہ فہمی کی بدولت معروف رہی ہیں۔نواز شریف،مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری ۔ آج کل تحریک انصاف کے منحرف لوگ آصف زرداری کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے دائرہ بنائے بیٹھے ہیں۔اک زرداری سب پر بھاری نے بھی سب کے لئے اپنا دامن،دسترخوان اور بازوکھول رکھے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پیڑ سے اڑ ے زیادہ تر پرندے پیپلز پارٹی کے آشیانے میں ہی بسیرا کریں گے ۔جس طرح قطار اندر قطار سیاسی رہنما تحریک انصاف سے نکلے ہیں،باالکل اسی طرح یہ ایم پی ایز اور ایم این ایز اب جوق در جوق پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔آصف زرداری کا ڈیرہ ان دنوں آباد ہے اور رونقیں لگی ہیں۔سیاسی گہما گہمی اور گرمی بازار کا یہ عالم ہے کہ رانا ثنا اللہ کو زچ ہو کر یہ کہنا پڑا ہے کہ ہم پی ٹی آئی کے سارے لوگوں کو اپنی پارٹی میں نہیں لے سکتے کیونکہ ہماری جماعت میں اتنی جگہ نہیں۔جبکہ آصف زرداری سب کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں،ویلکم کر رہے ہیں اور کچھ خاص لوگوں کو اہلا و سہلا مرحبا بھی کہا جا رہا ہے۔
عمران خان کے زوال کا سب سے پہلے کس نے اندازہ لگایا ؟کون تھا وہ جو سب سے پہلے بھانپ گیا تھا کہ اب عمران خان اور فوج ایک پیج پر نہیں رہے ؟کون تھا وہ جس نے ملکی تاریخ میں پہلی بار تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی بنیاد رکھی ؟ کون تھا وہ جو پارلیمنٹ کے اندر سے ہی پر امن تبدیلی لایا ؟ کون تھا وہ جس نے پہلی بار جمہوری حکومت کو مدت پوری کرنے کا اعزاز بخشا ؟بے شمار ایسے انہونے سوالات ہیں جن کے جواب میں تنہا آصف زرداری کا نام آتا ہے۔ آج کل ملکی سیاست میں بھی زرداری چھائے ہوئے ہیں اور ان کی شدید خواہش ہے کہ ایک بار پھر پی پی کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دیں۔کہا جاتا ہے کہ اب آصف زرداری کی ایک ہی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول بھٹو کو وزیر اعظم دیکھیں۔ڈھلتی عمر میں ان کی یہ خواہش بے سبب اور عبث نہیں۔امید بھی کیا چیز ہے کہ مرگ سے حیات کشید کر لاتی ہے اور جب آس و امید باقی نہ رہے تو زندگی بھی موت میں ڈھل جاتی ہے۔جیسے آج کل عمران خان کی حالت ہے اور وہ مایوسی میں مر رہے ہیں بلکہ مر مر کے جی رہے ہیں۔زرداری کی امید اور رجائیت پسندی کے پاس وقت کم ہے لیکن ان کی امید نا امید ہونے والی نہیں۔ بہت سے با خبر مبصر اور بہت سے پختہ تجزیہ کار خبر دیتے ہیں کہ مرکز اور سندھ میں آنے والی حکومتیں مجید نظامی کے مرد حر کی ہونگی۔واللہ اعلم! خیر یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ نئی حکومت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
اسلام آباد کے بڑے بڑے ڈرائنگ روموں اور اونچے اونچے سفارتی حلقوںمیں ایک ہی بازگشت سنائی دیتی ہے کہ زرداری اس پیرانہ سالی کے باجود اتنے متحرک کیوں ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ایک اور سوال بھی تواتر کے ساتھ پوچھا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ آخر پیپلز پارٹی میں ہی کیوں جا رہے ہیں ؟ دو جمع دو کرنے والے تجزیہ کار،سیاسی چالوں پر نگاہ رکھنے والے تبصرہ کار اور خبروں پر نظر جمائے خبر نگار جو لکھنا چاہتے ہیں وہ لکھ نہیں پاتے اور جو جانتے ہیں وہ حقیقت سے نظر یں چرا رہے ہیں۔ پاکستان ایسے انوکھے اور انہونے وطن میں ہر رنگ کا تجربہ ہو چکا لیکن اب کی بار شاید آصف زرادری اور میاں نواز شریف مل کر جمہوری استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے کوئی نیا اقدام کریں گے۔وہ بھی ایک دور تھا جس میں ٹیکنو کریٹ سسٹم کے حق میں مضمون چھپتے تھے کہ کس طرح بنگلہ دیش میں ٹیکنو کریٹ حکومت نے سیاسی اور معاشی ایجنڈا دیا اور اب بنگلہ دیش ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اب یہاں پاکستان میں بھی میڈیا پر ایک بہار آئے گی کہ نواز شریف اور آصف زرداری اب کی بار اپنی اپنی انا کی قربانی دیں گے اور دونوں پارٹیاں مل کر مخلوط حکومت بنائیں گی۔یقینا یہ میثا ق جمہوریت کا فیضان ہو گا اور اس کا سہرا آصف زرداری کے سر سجے گا۔
ہواوں کے مزاج سے آشنا بادبان رخ موڑنے میں دیر کہاں لگاتے ہیں۔ نازک مزاج پرندے موسموں کی ادا کے ساتھ ہی پرواز کے لیے پر تول لیتے ہیں۔ دوسری جانب وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے زرداری جیسے شہسوار بھی ایسے موسموں پرندوں کو دانہ دنکا ڈال کر ٹوکرے میں بند کر لیتے ہیں۔یہ زرداری کی فراست ہی ہے کہ پیپلزپارٹی کے لطیف اکبر کو سپیکر آزاد کشمیر اسمبلی منتخب کرا لیا ہے۔ ہمارے ذرائع کے مطابق لاہور بلاول ہاوس میں زرداری کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کیلئے تیاروسطی پنجاب کے30 رہنماوں کی فہرست پیش کی گئی ہے،ان کو پارٹی میں شامل کرنے کی حتمی منظوری زرداری دیں گے۔ حالیہ ہفتوں میں بے شمار لوگوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت بتاتی ہے کہ زرداری آئندہ حکومت بنانے کے لئے سرگرم ہو چکے ہیں اور اب لاہور،کراچی اور اسلام آباد میں بلوچی سردار کی سیاسی بیٹھک یونہی آباد رہے گی ۔