
جنیوا کانفرنس اور عالمی برادری کا تعاون
Chief executive Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/
تحریر:ارشدمحمود گھمن)
ہرگز ہرگز اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت تو بڑی پتلی اور ناتواں ہے ۔ملکی آمدن اور اخراجات میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو چکا ہے۔ہم مانگے تانگے سے ہی گزارہ کرتے آئے ہیں لیکن عمران خان کی پونے چار سالہ حکومت نے تو ملکی معیشت تباہ و برباد کر کے رکھ دی تھی۔رہی سہی کسر گزشتہ سیلاب نے نکال دی تھی ، بپھرا ہوا سیلاب ملکی ڈھانچہ،غریب ہاری،کسان،کاشتکار،ریڑھی بان،مزدور ،مستری اور دوسراپسہ ہوا طبقہ بہا لے گیا تھا۔ایسے میں پی ڈی ایم کی حکومت ملکی معاملات چلانے کے لئے کیا کرتی،آخر کار باہربیرون ممالک اور خلیجی ممالک سے امید لگانی پڑی۔جنیوا کانفرنس اس لحاظ سے انتہائی امید افزا اور حکومت کی سفارت کاری کامیاب رہی کہ اب ہماری گرتی پڑتی اور سہم سہم کر سانس لیتی معیشت میں جان پڑ جائے گی۔
جنیوا میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران عالمی برادری اور نجی اداروں کی جانب سے 9 ارب ڈالر سے زائد امداد کا اعلان ہوا جو پاکستان کی درخواست سے ایک ارب زیادہ ہے۔اس کانفرنسکی میزبانی وزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مشترکہ طور پرکی ،اس وجہ سے بھی عالمی برادری کے دل موم ہوئے۔کانفرنس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والے بدترین سیلاب کے بعد متاثر ہونے والے لاکھوں افراد کی بحالی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر نو کے لیے امداد کا حصول تھا ،اس میں پاکستان کامیاب و کامران رہا۔شہباز شریف نے تعمیر نو کے لیے 8 ارب ڈالر فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔عالمی وفود نے فوری طور پر امدادی کوششوں ، بحالی اور تعمیرنو کے لیے پاکستان کے عوم کے ساتھ تعاون کا اعادہ کیا۔
جنیوا کانفرنس کے پہلے مرحلے میں یورپی یونین نے 9 کروڑ، 30 لاکھ ڈالر، جرمنی نے 8 کروڑ، 8 لاکھ ڈالر، چین نے 10 کروڑ ڈالر، اسلامی ترقیاتی بینک نے 4 ارب، 20 کروڑ ڈالر اور عالمی بنک نے 2 ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔ جاپان نے7 کروڑ، 70 لاکھ، ایشائی ترقیاتی بینک نے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر، یو ایس ایڈ نے 10 کروڑ ڈالر اور فرانس نے 34 کروڑ، 50 لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔سعودی عرب نے بھی ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔گو یہ عالمی برادری کے ابھی وعدے ہیں لیکن یہ وعدے و معاہدے عمران خان کے تھوڑی ہیں جن کی اصل نہ ہو۔عالمی برادری جب قول و قرار کرتی ہے تو پورے بھی کرتی ہے۔سچ پوچھئے تو یہ وفاقی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو کنارے پر لے آئی ہے۔اس سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے جس وجہ سے ہم عالمی دنیا سے لین دین کر سکیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خبر بھی جڑی ہے جو ہماری ملکی معیشت کے لئے انتہائی اہم ٹھہری۔وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور آئی ایم ایف مشن چیف کی بھی ملاقات ہوئی ہے۔یہ وہ ملاقات ہے جس کے لئے پاکستان میں دن گنے جاتے تھے۔ اسحاق ڈار نے اس ملاقات میں آئی ایم ایف کے پروگرام کو مکمل کرنے کے عزم کو دہرایا ہے۔اس سے قبل پاکستان کی سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوران شیئرزکی قیمتوں میں کمی ہو چکی تھی۔اس کی وجہ پاکستان کی اقتصادی حالت تھی کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کسی بیمار کی طرح مردہ پڑے تھے۔اب اگر عالمی برادری نے جلدی وعدے پورے کر دیئے تو وفاقی حکومت اور عوام دونوں سکھ کا سانس لے سکیں گے۔امید کے خلاف امید کی جانی چاہئے کہ مہنگائی اور بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی۔ڈالر ملیں گے تو پاکستان فرنس آئل خریدے گا اور پھر یقیناً لوڈشیڈنگ میں بھی کمی ہو گی۔
اس حالیہ کانفرنس کی کامیابی اور عالمی برادری سے امداد نما پیکج لینے کا سہرا دو شخصیات کے سر سجتاہے۔ایک وزیر اعظم شہبازشریف اور دوسرا وزیر خارجہ بلاول بھٹو۔ان دونوں شخصیات نے ملکی معیشت میں جان ڈالنے کے لئے انتھک محنت کی، کامیاب سفارت کی اور منزل کو جالیا۔اب کم ازکم ہم ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آ نکلے ہیں اور پاکستان کے مخالفوں اور دشمنوں کی امیدیں خاک میں مل چکی ہیں۔ہمارے کچھ اپنے ہیں جو پاکستان کو سری لنکا جیسا دیکھنا چاہتے تھے مگر اب ان کی نیندیں حرام ہو جائیں گی۔شہباز شریف نے جنیوا کانفرنس میں اپنادل کھول کر رکھ دیا،انہوں نے وہاں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور پاکستان کو فوری طور پر تعمیر نو اور بحالی کے لیے 16 اعشاریہ 3 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔پاکستان میں سیلاب نے متاثرین کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے، آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں، وہ عالمی برادری کے تعاون پر مشکور ہیں، مشکل وقت میں مدد کرنے والے ممالک کو پاکستان نہیں بھولے گا۔
سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تاحال سیلاب کا پانی موجود ہے، سیلاب متاثرین کو دوبارہ بحال کر کے اچھا مستقبل دینا ہے تو ان کی تعمیر نو کے لیے فریم ورک تیار کرنا پڑے گا۔پھر ہمارے بجلی اور گیس کے بھی گردشی قرضے ہیں جو ہمیں جکڑے کھڑے ہیں۔آنے والے ایام میں پاکستان کو عام انتخابات کی جانب بھی جانا ہے اس کے لئے بھی الیکشن کمیشن کو اربوں روپے درکار ہیں۔حکومت غریب عوام کے لئے چینی پر اور کسانوں اور کاشتکاروں کے لئے کھاد پر بھی سبسڈی دیتی ہے،اس کے لئے بھی حکومت کو معاشی پلان بنانا ہو گا۔جنیوا کانفرنس اور عالمی برادری کے تعاون سے امید بندھی ہے کہ اب پاکستان استحکام کی جانب چل نکلے گا۔