
عمران خان کے اعترافات اور سرکتا نقاب
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر :ارشد محمود گھمن)
جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ویسے ویسے عمران خان کے اعترافات،اقرارات اور اعزازات بڑھتے جاتے ہیں۔عمر بھر کپتان کا نقش قدم یوں بھی رہا اور ووں بھی۔کبھی وہ لمحہ بھر میں شعلہ ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے ہی لمحے وہ شبنم بن جاتے ہیں۔سچی اور دل لگتی بات یہ ہے کہ عمران خان کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے گزرے کل کہا کیا تھا۔اسی وجہ سے انہیں یوٹرن لینا پڑتے ہیں جس میں وہ کوئی عار یا عیب نہیں سمجھتے۔گزشتہ سے پیوستہ روز اسلام آباد کی سیشن عدالت میں پھر عمران خان کے خواجہ آصف کےخلاف ہتک عزت کے دعویٰ کی سماعت ہوئی۔حیرت ہے، حیرت سی حیرت ہے کہ ریاست مدینہ کا نام جھپنے والے عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کو ملنے والی امداد سے تین ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا اعتراف کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے مذکورہ کیس میںکہا ہے کہ شوکت خانم کو ملنے والی امداد سے تین ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی تھی جو 2015 میں شوکت خانم کو واپس دے دی گئی۔اب اس پر عدالتی صادق و امین سے کون پوچھے کہ حضور صدقات،خیرات،عطیات ،چرم اور چندے کا پیسہ تجارتی مقصد اور منافع کے لئے استعمال کرنا جرم نہیں ؟مگر کس کے منہ میں اتنے دانت ہیں کہ عمران خان سے یہ پوچھے ۔
خواجہ آصف کےخلاف ہتک عزت کے دعوے میں چیئرمین پی ٹی آئی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے،دورانِ سماعت وکیل علی شاہ گیلانی نے ان پر جرح کی۔عمران خان نے وکیل صفائی کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا یہ بات ٹھیک ہے کہ 2008 میں تین ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی گئی تھی اور سرمایہ کاری کرنے والی رقم 2015 میں شوکت خانم کو واپس مل گئی، تین ملین ڈالرز کی رقم سات سال ایچ بی جی گروپ کے پاس رہی جس کے چیف ایگزیکٹو امتیاز حیدری ہیں، امتیازحیدری اس کمیٹی میں شامل تھے جنھوں نے تین ملین ڈالرز کی رقم سرمایہ کاری کرنے کے لیے منظور کی۔خواجہ آصف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کا آپ کو معلوم ہے؟ اس پر عمران خان نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال کے فیصلوں کا مجھے علم نہیں، شوکت خانم کے مالی فیصلوں کی آڈٹ رپورٹ ہوتی ہے، ہسپتال کا بورڈ جو فیصلے کرتا ہے مجھ سے پوچھ کر نہیں کرتا، مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ دو آف شور کمپنیوں میں شوکت خانم ہسپتال کا پیسہ لگایا گیا تھا۔سبحان اللہ ! یہ وہی عمران خان ہیں جو اپنی لایعنی اور بے معنی تقریروں میں پانامہ کیس کا نام لے لے کر نواز شریف پر الزام تراشی کرتے نہیں تھکتے تھے کہ انہوں نے آف شورکمپنیوں سے اپنا پیسہ چھپایا ہے،پیسہ ہی نہیں چھپایا بلکہ نواز شریف نے آف شور کمپنیاں بنا کر کرپشن بھی کی ہے۔اللہ کی قدرت دیکھئے کہ آج وہی انسان خود عدالت میں اپنی مالی بدعنوانی کا اعتراف کرتا پایا گیا۔
عمران خان نے عدالت میں جرح کے دوران خود ہی کہا کہ توشہ خانہ بھی قانونی ہے اور پی ٹی آئی کی فارن فنڈنگ بھی قانونی ہے ۔جب وکیل صفائی نے ان سے کہا کہ الیکشن کمیشن تو کرپشن کرنے پر آپ کے خلاف فیصلہ دے چکا ہے۔اس پر عمران خان نے کہا جی مجھے معلوم ہے۔ خواجہ آصف کے وکیل نے پھر سوال کیا کہ اگر میں کہوں 30 لاکھ ڈالر کو بطور منی لانڈرنگ باہر بھیجا گیا اور پھرسات سال بعد واپس لایاگیا تو؟ عمران خان نے کہا کہ شوکت خانم ہسپتال کے 40 فیصد سے زائد عطیات بیرون ملک سے اکٹھے ہوتے ہیں، یہ بات غلط ہے کہ شوکت خانم کے پیسے کو منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجاگیا۔اب قارئین لمحہ بھر کو قانونی اور فنی موشگافیوں کو الگ رکھ کر سوچیں کہ کیا آف شور کمپنیوں کے ذریعے باہر بھیجا گیا پیسہ منی لانڈرنگ نہیں ؟دراصل عمران خان جوکام اپنے لئے درست سمجھتے ہیں وہی کام سیاسی مخالفوں کے لئے گناہ شمار کرتے ہیں۔ان کے قول و فعل میں اتنا تضاد ہے کہ اوسط ذہن کا آدمی بھی اس میں فوری جھول اور جعل سازی پکڑ لیتا ہے۔ لیکن چونکہ کپتان نرگیست کا شکار ہیں اور وہ اپنے آپ کو مقدس اور ملکوتی سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان سے تو کوئی گناہ یا غلط کام سرزد ہو ہی نہیں سکتا۔
اب آہستہ آہستہ عدالتوں کے کٹہروں ،الیکشن کمیشن کے فیصلوں اور میڈیا کی تحقیقاتی رپورٹوں میں عمران خان کا نقاب اتر رہا ہے۔ان کا تراشا گیا بت اب صنم خانے میں نہیں کاٹھ کباڑ میں پڑا ہے ۔اور تو اور کئی انصافین بھی اب صورتحال کی سنگینی سمجھ چکے ہیں۔فارن فنڈنگ کیس میں جو فیصلہ آیا ہے ،وہ اپنوں اور بیگانوں سبھی کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے عمران خان کے باب میں وہ پاپی اور پر شور پروپیگنڈا کیا تھا کہ اس پر بہت سے لوگ ایمان لے آئے تھے۔جبکہ حقیقت میں سچائی اور حقائق با لکل بر عکس ہیں اور اب رفتہ رفتہ ان کی سچائی کا لبادہ اتر رہا ہے۔بس کوئی دن جاتا ہے کہ عمران خان لباس فطرت میں کھڑے ہونگے اور سب لوگ ان کی اصلیت اور ان کے سوشل میڈیا کے جھوٹے بیانیے کو جان لیں گے۔بقول مریم نواز عمران خان مکافات عمل کا شکار ہو چکے ہیں۔انہوں نے جو الزام اپنے سیاسی مخالفوں پر لگائے تھے وہ بھی جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں اور ان کا اپنا نجی و شخصی کردار نکھر رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مکافات عمل کی چکی چلتی تو تھوڑی دیر سے ہے لیکن وہ جب چلتی ہے تو باریک دانوں کی طرح پیستی جاتی ہے۔