اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

فواد چودھری کی گرفتاری اور آئندہ کا منظر نامہ

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر:ارشدمحمودگھمن)

 

بات اب فواد چودھری کی گرفتاری سے بہت آگے جائے گی،اتنی آگے کہ شاید پھر تحریک انصاف کے لئے آگے کا راستہ نہ بچے۔عمران خان، فواد چودھری،شاہ محمود قریشی،فرخ حبیب،اسد عمر،یاسمین راشد،اعجاز چودھری،شہباز گل،اعظم سواتی،زبیر خان نیازی اور اس قبیل کے دیگر تمام لوگوں نے حکومت کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا کہ وہ نرم دلی اختیار کر سکے۔بات بات پر حکومت کو للکارنا،اداروں کو لتاڑنا،سیاسی مخالفوں کو آنکھیں دکھانا،فوج پر یلغار کرنا حتیٰ کہ عدلیہ کو بھی نشانے پر رکھ لینا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔تحریک انصاف کے تمام رہنما اس خام خیالی کا شکار ہو چکے ہیںکہ ہم جو چاہیں کہیں ،جو چاہیں کر گزرےں ہمیں کوئی روکنے یا پوچھنے والا نہیں۔پہلے استعفے دینا پھر ان سے مکر جانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔جب چاہا منہ بھر کر پارلیمان کو گالی دی،الیکشن کمیشن پر بے تکے اور بے ہودہ الزام لگائے۔پی ٹی آئی والے اس راستے پر اتنا چلے کہ پھر حکومت کے لئے بھی کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ ان کی دریدہ دہنی اور بد زبانی پر لگام ڈال دے۔

عمران خان چاہتے ہیں کہ عام انتخابات ہوں لیکن ایسے انتخابات جس میں انہیں اکثر یت ملے۔ویسی اکثریت جو 2018 میں کچھ خاص لوگوں نے اپنے شخصی مفاد کے لئے انہیں دلائی تھی۔عمران خان نے فواد چوھری کو کھلا چھوڑ رکھا تھا کہ وہ خوب ہنگامہ مچائیں،مخالفوں کی پگڑیاں اچھالیں اور جھوٹ بول کر کارکنوں کو بھی گرمائیں۔اب فواد چوھری سرکار کے مہمان ہیں اور امید کے خلاف امید کرنی چاہئے کہ وہ شہباز گل کی طرح چیخیں نہیں ماریں گے،بیماری کا بہانہ نہیں تراشیں گے اور دلیروں کی طرح جیل اور مقدمات کا سامنا کریں گے۔لیکن اس ضمن میں تحریک انصاف والوں کی تاریخ اور ریکارڈ دونوں اچھے نہیں ۔عمران خان جنسی تشدد کا الزام لگاتے دیر نہیں کرتے ،حالانکہ ایسی بات کوئی شریف آدمی کہنے سے پہلے سوبار سوچے اور پھر بھی نہ کہے۔آگے آنے والے ایام اور منظر نامہ پی ٹی آئی کے لوگوں کے لیے اچھا نہیں،اب موسم کڑا اور راتیں اندھیر ہیں،مقدمات ہیں اور جیلیں ہیں۔کیونکہ ہر کام کی ایک اخیر بھی ہوتی ہے اور جلد یا بدیر اپنا بویا کاٹنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد ڈیوٹی مجسٹریٹ کی عدالت میں دورانِ سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا جب سے پی ٹی آئی نے رجیم چینج کا شوشہ چھوڑا ہے تب سے الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عوام کو الیکشن کمیشن کے خلاف اکسایا جا رہا ہے، فواد چوہدری نے عوام کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی،ان کی تقریر کا مقصد صرف بغاوت پر اکسانا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے ملازمین کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالنا تھا، الیکشن کمیشن کو دھمکی آمیز خط لکھے گئے ہیں۔ظاہر و باہر ہے جب فواد چوھری ملکی اداروں کو ہد ف بنائیں گے اور فضول و مجہول باتوں سے ان پر الزام لگائیں گے تولوگوں کی زندگیاں تو خطرے میں پڑیں گی۔ملکی اداروں کا اپناایک وقار اور اعتبار ہوتا ہے،اگر اس طرح دشنام طرازی کی جائے گی تو ملکی رٹ ختم ہو سکتی ہے۔نواز شریف اور مریم نواز پر بھی مقدمات بنائے گئے،انہیں جیل جانا پڑا لیکن انہوں نے تہذیب اور تمیز کا دامن نہیں چھوڑا۔کہیں اگر تنقید بھی کی تو احترام کے دائرے میں، شائستہ اور شستہ لہجے اور نفیس زبان میں۔اس لحاظ سے لیگی اور پی پی لیڈروں کا اعزاز ہے کہ انہوں نے کبھی اس طرح ملکی اداروں کو اپنے پروپیگنڈے کا ہدف نہیں بنایا۔

سب سے زیادہ خطر ناک اور خوفناک بات یہ ہے کہ جہلم کے چودھری نے عدالت میں ببانگ دہل کہا کہ میں جوکہتا ہوں وہ پارٹی پالیسی ہے۔ مجسٹریٹ کی عدالت میں فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا وہ جو بولتے ہیں وہ جماعت کی پالیسی ہوتی ہے،میرے خلاف کوئی مقدمہ بنتا ہی نہیں، اگر تنقید کرنے پر مقدمات درج ہوں گے تو پھر جمہوریت فروغ نہیں پائے گی، الیکشن کمیشن نہ ریاست ہے اور نہ ہی حکومت، انھیں لاہور سے گرفتار کرکے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیوں کیا گیا۔ فواد چودھری کو کون سمجھائے کہ تنقید کرنے اورتوہین کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے،آپ تنقید نہیں کرتے بلکہ ملکی اداروں اور ان کے سلامتی کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ اس کے برعکس وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے قدرے سلجھا ہو ا رویہ اپنایا ۔مریم اورنگزیب نے کہا کہ فواد چودھری کی گرفتاری کو سیاسی رنگ دیا اور آزادی اظہار رائے پر پابندی سے جوڑا جارہا ہے لیکن یہ کوئی سیاسی گرفتاری نہیں،عوام، میڈیا اور اداروں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کہاں لائن کھینچنی ہے۔بتلایئے ناں صاحب کہ اس میں غلط کیا ہے ؟

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے ایف آئی آرکی نقل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ وہ ایف آئی آر ہے جو الیکشن کمیشن نے فواد چودھری کے خلاف درج کرائی اور سیکرٹری الیکشن کمیشن مدعی ہیں ، یہ سیاسی گرفتاری نہیں، ہم 9 ماہ سے حکومت میں ہیں،اس عرصے میں عمران خان، فواد چودھری اور دیگر نے جو زبان حکومت اور پارٹی قیادت کے بارے میں استعمال کی ہے ، اگر ہم نے سیاسی گرفتاری کرنی ہوتی تو یہ تمام رہنما اس وقت جیلوں میں ہوتے،فاشزم، اختیارات کے ناجائز استعمال، ریاست کی طاقت کے استعمال کا عملی نمونہ عمران خان نے 2018 سے 2022 تک پیش کیا، باپ کے سامنے بیٹی کو گرفتار کیا گیا، نواز شریف کی اقامہ پر گرفتاری، نااہلی اور پارٹی کی صدارت سے ہٹانا سیاسی انتقام تھا لیکن انہوں نے اداروں اور ان کے سربراہوں کے بچوں کو گالی یا دھمکی نہیں دی۔اب مریم اورنگزیب اور فواد چودھری کے بیانات کا تقابل کوئی غیر جانبدار ہی کر سکتاہے کہ کون سچ بول رہا ہے۔یقین جانیئے اکثر غیر جانبدار مبصر تحریک انصاف کے حق میں نہیں خلاف ہی گواہی دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button