اہم خبریںفیچر کالمز

عمران خان کا رونا دھونا اور سیاپا

Chief executive Arshad mahmood Ghumman

میرا کالم/حقیقت

(تحریر:ارشدمحمود گھمن )

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا درد ہے کہ بڑھتا جاتاہے،ان کے نالے ہیں کہ بلند سے بلند ہوئے جاتے ہیں۔آہ و زاریاں،گلے، شکوے اور الزام و دشنام ہیں کہ روز بروز اک نیا سلسلہ نکلتا ہے اور وہ پھر شروع ہوتے ہیں تو رکنے کا نام نہیں لیتے۔جب سے ان کو آئینی طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا ہے،وہ دن اور آج کا دن ،وہ کوئی رات خالی نہیں جانے دیتے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تبریٰ نہ بھیجتے ہوں۔انہیں طعنے ،مینے اور قصے کہانیاں نہ سناتے ہوں ۔ان کی اپنی کارکردگی صفر تھی لیکن وہ سارا بوجھ بے دھڑک سابق سپہ سالار پر ڈال دیتے ہیں کہ ہاں ہاں میری حکومت کیوں ختم کی۔مجھے رسوا کر کے گھر کیوں بھیجا گیا۔

عمران خان کا رونا، پیٹنا اور سیاپا دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مریض کا زخم کافی گہرا ہے اور وہ جاں کنی کے عالم میں سانس لے رہا ہے۔ان کا مرض بھی پرانا ہے اور ان کا معالج بھی۔وہ جب بھی میڈیا میں آتے ہیں یا کسی سیاسی سخصیت سے ملتے ہیں تو ان کا پرانا درد جاگ اٹھتا ہے۔پھر وہ کسی بلکتے بچے کی طرح روتے ہیں اور چپ نہیں ہوتے۔انہوں نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں لب کشائی کرتے ہوئے کہا اور کراہ کر کہا کہ ایجنسیاں ہمارے لوگوں کو توڑ رہی تھیں لیکن جنرل (ر) باجوہ کہہ رہے تھے ہم نیوٹرل ہیں، اب ساری چیزیں سامنے آ گئی ہیں، یہ منصوبہ 2021 کی گرمیوں میں بن گیا تھا،شروع میں ہمیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔بندہ پوچھے کہ جب جنرل قمر جاوید باجوہ آپ کو اقتدار میں لائے تب وہ اچھے تھے۔تب تو وہ محب وطن تھے اور آپ کی حکومت اور فوج ایک پیج پرتھی۔لیکن جب انہوں نے آپ کے سر سے دست شفقت ہٹالیا تو اتنا برا ہو گیا وہ شخص۔کیوں ؟ آخر کیوں؟

پونے چار سال عمران خان اقتدار کے مزے لوٹتے رہے،انہیں عوام کا خیال نہیں آیا کہ ان کی فلاح و بہبود کے لئے واقعی کچھ کیا جائے۔منہ زور مہنگائی اور بے لگام بےروز گاری ختم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بنایا جائے۔تب وہ دوپہر کو سوتے سے اٹھتے اور بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر میں آتے اور وزیر اعظم ہاﺅس میں قدم رنجہ فرماتے۔دو ایک گھنٹے گپ شپ کرتے اور پھر سورج کنارے آن لگتا تو وہ شام کے شغل کے لیے بنی گالا لوٹ آتے۔عوام کس حال میں ہیں،ان کی بلا جانے۔آج وہ روتے نہیں تھکتے کہ میری حکومت ختم کر دی گئی۔کوئی جائے اور جاکر زمان پارک میں انہیں سمجھائے کہ حضور سیاسی مخالفین کے منہ پر کالک ملنے والے جھوٹے اور جعل ساز لوگوں کا یہی انجام ہوتا ہے کہ ایک دن وہ سر بازار رسوا ہو تے اور پاگلوں کی طرح گھر لوٹ آتے ہیں۔

انہوں نے باطل سا دعویٰ کیا کہ حسین حقانی کو ہماری حکومت میں ہائر کیا گیا، اسے جنرل (ر) باجوہ نے ہائر کیا جس نے امریکا میں پوری مہم چلائی کہ عمران خان امریکا مخالف ہے،ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ ہماری حکومت میں دفتر خارجہ کے نیچے حسین حقانی کو اکتوبر 2021 میں ہائر کیا گیا ہے، اس کے ساتھ سی آئی اے کا بھی کوئی آدمی تھا۔اللہ اللہ۔اب اس سفید اور پاپی پروپیگنڈے پر کوئی کہے تو کیا کہئے۔عمران خان جب بولتے ہیں تو بے تکان اور اول فول بولتے ہیں ۔یقین جانیئے انہیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہہ کیا رہے ہیں اور کسے کہہ رہے ہیں۔آج کل ان کا یہ حال ہے کہ ہر دم انگارے کھائے ہوئے ہیں اور شعلے اگلتے ہیں۔فرمایا انہوں نے مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہوا کیا ہے؟ میرے خلاف یہ گیم چلائی گئی تھی جس کی مجھے پوری طرح سمجھ نہیں آئی۔ بعد ازاںآہستہ آہستہ سمجھ آنی شروع ہوا کہ اس کے پیچھے پورا پلان تھا، اور پلان یہی تھا کہ شہباز شریف کو لانا ہے۔بس یہی ان کا اصل درد ہے ،ان کا یہی کاری زخم ہے کہ ہائے ہائے شہباز شریف نے کیوں شیروانی پہن لی اور میری شیروانی کیوں زبردستی اتروا دی گئی۔

اسی ٹی وی پروگرام میں ان کا درد امنڈا آتا تھا،ایسا لگتا تھا کہ درد کا دریا ہے اور چڑھا ہوا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ایک جنرل باجوہ توسیع سے پہلے تھے اور ایک بعد میں تھے، جب توسیع ہوئی تو انہوں نے ساری پارٹیوں کو ساتھ ملا کر اسمبلی سے ووٹ منظور کروایا اور خاص طور پر (ن) لیگ کو آن بورڈ لیا، میرا خیال ہے ان کی اس وقت انڈر سٹینڈنگ ہوگئی تھی۔ایک دم جنرل (ر) باجوہ کہنا شروع ہوگئے کہ معیشت کو ٹھیک کریں۔کا ش ٹی وی کا میزبان انہیں ٹوکتا اور ببانگ دہل پوچھتا کہ مابدولت معیشت کو ٹھیک کرنے کی بات غلط تھی ؟لیکن کپتان کو ملکی معیشت سے بھلا کیا غرض ہو سکتی تھی ؟ وہ تو ان کی مرشد تھی جو توشہ خانہ کے تحائف سے اپنی معیشت ٹھیک ٹھاک درست کرنے میں جتی تھی۔کہا جاتا ہے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جب انہیں ان کی گھر کی کرپشن کے بارے میں بتایا تو وہ ناراض ہو گئے۔

آگے چل کر فرمایا انہوں نے باجوہ ڈاکٹرائن یہ ہے کہ کوئی اتنا تگڑا نہ ہو جائے وہ کنٹرول نہ ہوسکے، سندھ میں پیپلز پارٹی کو کھلا ہاتھ دیا گیا، 2018 میں جب انتخابی مہم چلانے گیا تو نگراں حکومت کے چیف سیکرٹری نے کہا یہاں تو پیپلز پارٹی کا کنٹرول ہے، انہوں نے میرے اوپر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کی، میں اپنی ایفآئی آر نہیں کٹوا سکا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے، یہاں قانون کی حکمرانی نہیں ، یہاں اسٹیبلشمنٹ اتنی تگڑی ہےآ پ کے ساتھ وہ جو چاہے کر سکتی ہے۔بندہ پوچھے کہ اقتدار کھو کر آپ آخر اپنے ہوش کیوں کھو گئے ہیں خان صاحب!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button