
عمران خان اور پرویز الٰہی کی قربتیں اور محبتیں
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر:ارشدمحمود گھمن)
بڑے بڑے تجزیہ نگار ساکت وصامت ہیں اور اونچے اونچے کالم نگار حیران و پریشان ہیں کہ عمران خان کو ہوا کیا ہے۔ہرگز ہر گز اب اس میں کوئی مبالغہ نہیں رہا کہ عمران خان اپوزیشن میں آکر بہت درست پتے کھیل رہے ہیں۔وہ ایسی ایسی چالیں چل رہے ہیں کہ حامی تو حامی حریف تک دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔ہر کوئی اس ٹوہ میں ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین اتحادی حکومت کو جو ناکوں چنے چبوا رہے ہیں،اس کے پیچھے مشاورت کس کی ہے۔کون ہے وہ جو عمران خان کو ایسے دبنگ اور دلیر مشورے دے رہا ہے۔ہمارے ذرائع کے مطابق اس کے پیچھے کوئی اور نہیں،یہ کارنامہ گجرات کے جاٹ چودھری پرویز الٰہی کا ہے۔عمران خان اچھے پتے پرویز الٰہی کی وجہ سے کھیل رہے ہیں اور خوب کھیل رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے اب میدان ان کے ہاتھ میں ہے اور مخالف فریقوں کی شکست قریب ہے۔گویا چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی سوجھ بوجھ اور حکومت کا عملی تجربہ اب عمران خان کے کام آرہا ہے اور کپتان اس کا خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔اور چودھری پرویز الٰہی کی مسلم لیگ ق کے ساتھیوں سمیت تحریک انصاف میں شمولیت بھی بے سبب نہیں۔عمران خان کی خواہش اور تمنا بجا کہ مسلم لیگ ق والے پی ٹی آئی میں ضم ہو جائیں، اس کے پیچھے بھی اصل میں دونوں کا اعتماد اور قربت وجہ بنی ہے۔
راقم الحروف کو ایک قریبی ذریعے نے یہ بھی بتایا ہے کہ اب تحریک انصاف پنجاب کی صدارت پر بھی کوئی اور نہیں چودھری مونس الٰہی متمکن ہوں گے۔مسلم لیگ ق کے ایک دھڑے کی تحریک انصاف میں شمولیت کا آخر کوئی نتیجہ بھی توآنا ہے۔مسلم لیگ ق کے مرکزی صدر چودھری شجاعت حسین نے صوبائی صدر پنجاب کی پارٹی رکنیت معطل کرکے چودھری پرویز الہی کی مشکل خاصی آسان کر دی ہے کہ وہ اب آسانی سے پی ٹی آئی میں اپنے سیاسی سفر کاآغاز کر سکیں گے۔اصل میں اس کے پیچھے مونس الٰہی کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ مستقبل میں عمران خان کے ساتھ ہی چلنا چاہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے پر مونس الٰہی کو پنجاب کی صدارت سونپنے کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔ایک دوسرے قابل اعتماد ذرائع نے یہ بھی لب کشائی کی ہے کہ شریف برادران کو ٹف ٹائم دینے کے لئے چودھری پرویز الہی کو اگلا وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کا بھی فیصلہ ممکن ہے۔دوسری جانب چودھری شجاعت کی بھی مشکل آسان ہو چکی ہے کہ اب وضع داری کا بھرم باقی نہیں رہا۔چودھری پرویز الٰہی اپنی سیاسی پرواز کر چکے ہیں اور چودھری شجاعت حسین کو اب اپنے گھر مسلم لیگ ن میں لوٹ جانے کی کوئی دشواری در پیش نہیں ہو گی۔ویسے بھی چودھری شجاعت کے بیٹے اور نواز شریف کے بیٹے دونوں خاصے قریب ہیں۔سو دونوں گھرانے اب اپنے اپنے طور پر آزادانہ فیصلے کرنے میں آزاد ٹھہرے۔
اب آئندہ کا سیاسی منظر نامہ خاصا دلچسپ رہے گا، کیونکہ سیاسی بساط بچھ چکی ہے اور مہرے اپنی جگہ تبدیل کر چکے ہیں۔چودھری پرویز الٰہی کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے مسلم لیگ ن مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ راوی روایت کرتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے درجن سے زائد اراکین اسمبلی نے چودھری پرویز الہٰی کوعام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی میں شامل ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔سچ پوچھیئے تو مستقبل کی سیاست میں چودھری پرویز الٰہی خاصی اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔مونس الٰہی کی وجہ سے پرویز الٰہی عمران خان کے خاصے قریب آ چکے ہیں اور وہ انہی کے کہنے پر سیاسی چالیں چل رہے ہیں جو کامیاب نظر آتی ہیں۔اب عمران خان کا جوش اور پرویز الٰہی کا ہوش مل کر پی ڈی ایم کا مقابلہ کرے گا ۔عمران خان نے دوسرا بڑا فیصلہ پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی میں واپسی کا کیا ہے۔تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں واپسی پر شاہ محمود قریشی کو اپوزیشن لیڈر بنایا جائے گا تاکہ قومی اسمبلی میں خوب ہنگامہ ہوتا اور غل مچا رہے ،عمران خان کو ویسے بھی ہیجان اور جنون پسند ہے کہ کہیں قرار نہ ہو،افراتفری اور ہاﺅ ہو کا دور چلتا رہے۔لیکن اس ساری ہنگامہ خیز صورتحال میں شہباز شریف،آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان بھی چپ نہیں بیٹھے ہوئے۔
بعضوں کو گماں غالب اور بہت سوں کو یقین کامل کہ شہباز شریف آسانی سے اعتمادکا ووٹ لے لیں گے اور وہی قائد ایوان رہیں گے۔اگر ایم کیوا یم اپنی پرانی روایت یعنی دو قدم آگے اور ایک قدم پیچھے پر ہی کاربند رہتی ہے تو بھی شہبازشریف کو 181 ارکان کا اعتماد حاصل ہے۔وزیر اعظم ہزار اڑچنوں اور سینکڑوں بندشوں کے باوجود بھی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب رہیں گے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مرکز میں ابھی کوئی تبدیلی نہیں چاہتی۔جنیوا کانفرنس میں 10ارب ڈالر کے جو وعدے ہوئے ہیں، وہ جمہوری حکومت سے ہی مشروط ہیں۔ویسے بھی ملکی معیشت کسی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔پرویز الٰہی کو راولپنڈی کا ہزار اعتماد حاصل ہو مگر وفاق میں ابھی منہ زور ہوائیں نہیں چلنے والیں۔ بے موسمی آندھی یا موسلا دھار بارش اس سرد موسم میں اسٹیبلشمنٹ کو بھی سازگار نہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سیاسی صورتحال میں ٹھہراﺅ اور پارلیمانی منظر کا راستہ ہموار رہے تاکہ بیرونی امداد اور قرض پاکستان کو مل سکے۔ڈالر ملیں گے تو ملکی معیشت چلے گی،معیشت چلے گی تو ہی کاروبار زندگی اور معاملات سیاست چلیں گے ورنہ نہیں۔