اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

تحریک انصاف اب عدالتی کٹہروں میں

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر:ارشدمحمودگھمن)

 

تحریک انصاف احتجاج کے میدانوں کے ساتھ ساتھ عدالتی کٹہروں میں بھی آچکی ہے۔وہ ہاری ہوئی سیاسی جنگ اب سپریم کورٹ میں لے آئی ہے۔ وہی ہوا جس کاخدشہ تھا،وہی ہونا تھا جو عمران خان نے چاہا اور سوچا تھا۔پاکستان کا سیاسی منظر نامہ گرم ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کی میز پر بھی آگیا ہے ۔سیاسی لڑائی کو اب قانونی جنگ میں بدلا جا چکا ہے۔میدان اور محاذ جو بھی ہو لیکن سیاسی استحکام کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ملکی معیشت آگے ہی کمزور اور ناتواں ہے،اس پر سیاسی بے یقینی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔اوپر سے تحریک انصاف نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب،اپوزیشن لیڈر کی تقرری اور الیکشن کمیشن کے دوممبران کی تعیناتی عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دی ہے۔گویا اب صورتحال مزید گنجلک اور گمبھیر ہوگی اور آنے والے دن کڑے اور راتیں کٹھن ہونگی کیونکہ پی ٹی آئی اب تل چکی ہے کہ پارلیمانی نظام کو قرار اور استحکام نہیں آنے دینا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اسحاق ڈار ڈالر کو قابو کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔کیونکہ اگر وفاقی وزیر خزانہ ڈالر کی پرواز کے پر کترنے میں کامیاب ہوگئے تو پی ٹی آئی کی امیدیں خاک میں مل جائیں گی۔

محض تحریک انصاف پر ہی کیا موقوف کہ شیخ رشید نے بھی سازش کی ٹھانی ہے اور وہ بھی اپنی تانگہ پارٹی کے نام پر عدالت جا پہنچے ہیں۔تحریک انصاف نے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی ، اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور الیکشن کمیشن ممبران حسن بھروانہ اور اکرام اللہ خان کی تقرریوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔شیخ رشد نے بھی الگ سے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔گو یہ دوجماعتوں کی اپنی اپنی پٹیشنیں ہیں مگر دونوں کا نشانہ اور ٹھکانہ ایک ہے۔دونوں کا مخرج،مرکز اور مصدر ایک ہے اور ہاں دونوں کا درد بھی سوا ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے درخواست پارٹی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے دائر کی ہے۔ ان کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ حکومت نے مذموم مقاصد کے لیے جمہوری روایات اور اسمبلی قوانین کی خلاف کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کا نوٹیفکیشن جاری کیا، الیکشن کمیشن کے دو ممبران کی تقرری کا پورا عمل غیر آئینی اور عدلیہ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انتخابات کے عمل سے باہر کرنے کے لیے بدنیتی پر مبنی اقدامات کیے، سیاسی جماعتوں کے فارن فنڈنگ کیسز میں صرف پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دیا۔

اسد عمر کی دائر درخواست میں مزید لفظوں کے لالہ و گل کھلاتے ہو ئے کہا گیا کہ ایک کیس میں سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر سے عام انتخابات کے انعقاد بارے پوچھا، الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ مردم شماری اور حلقہ بندیاں مکمل ہونے تک الیکشن نہیں ہو سکتے، الیکشن کمیشن کا یہ بیان آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی کا اعتراف ہے، الیکشن کمیشن نے محسن نقوی کی تقرری کے حوالے سے بھی طریقہ کار کے مطابق وجوہات جاری نہیں کیں،ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر فیصل واوڈا نے تو نگران وزیراعلیٰ کا نام پہلے ہی بتا دیا تھا، نگران وزیراعلیٰ کے لیے دیگر بہتر نام بھی موجود تھے لیکن ان پر غور نہیں کیا گیا، جس شخص کو نگران وزیراعلیٰ پنجاب لگایا گیا اس کا کوئی سیاسی، آئینی یا بیوروکریٹک تجربہ نہیں۔ تحریک انصاف کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ تمام سٹیک ہولڈرز کی معاونت سے آزادانہ اور شفاف الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائے، نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا نوٹیفکیشن آئین اور الیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے، اس لئے کالعدم قرار دیا جائے، یہ بھی قرار دیا جائے کہ الیکشن کمیشن آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کا اہل نہیں رہا۔ درخواست میں وفاقی حکومت، سپیکر قومی اسمبلی، اپوزیشن لیڈر، پنجاب حکومت، الیکشن کمیشن اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کو فریق بنایا گیاہے ۔اب آپ ہی بتایئے صاحب کہ سیاسی استحکام آئے تو کیسے، ملکی معیشت ٹھیک ہو تو کیونکر۔

دوسری جانب شیخ رشد نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ محسن نقوی اپوزیشن مخالف اور حکومتی مددگار کے طور پر سامنے آئے ہیں، پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے آپریشن میں بھی وہ اہم کردار تھے ،محسن نقوی کی موجودگی میں پنجاب میں صاف اور شفاف انتخابات نہیں ہوسکتے۔ شیخ رشید کی درخواست میں بھی محسن نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی گئی ہے ۔شیخ رشید جب سے وزارت سے فارغ ہوئے ہیں انہیں عمران خان سے بھی زیادہ پی ڈی ایم پر غصہ ہے۔ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر حکمرانوں کو گھر بھیج دیں۔صرف گھر بھیجنے پر ہی ان کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہو گا،وہ تو چاہیں گے کہ پوری پی ڈی ایم کو جیل بھیج دیا جائے،فرضی اور وضعی مقدمات چلا کر انہیں لگتے ہاتھ سزائیں بھی سنا دی جائیں۔ہمارے ذرائع کے مطابق اب پی ٹی آئی کو وہ پہلے والی رعاتیں اور سہولتیں نہیں ملیں گی۔سپریم کورٹ انتہائی غور وخوض کر کے فیصلہ سنائے گی۔عدالت عظمیٰ کو بھی اب معاشی اور سیاسی صورتحال پر تشویس ہے اور معزز ججز بھی صدق دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ ساتھ پارلیمانی نظام بھی بہتر ہو تاکہ عوام کو سکھ اور سکون کا سانس نصیب ہو۔ ویسے بھی عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق چلتی ہیں اورکسی کی خواہشوں میں رنگ نہیں بھرتیں۔ اب تحریک انصاف کو اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے شاید ایسا کوئی ریلیف نہ ملے جو ان کے مردہ جسم میں توانائی پھونک سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button