اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

170ارب کے نئے ٹیکسز اور170 ارب ہی ایم این ایزکو تحفہ

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

‏حقیقت/

تحریر، ارشد محمود گھمن)

 

حکومت نے عوام کے سامنے جھولی پھیلائی ہے کہ 170 ارب روپے کا سوال ہے بابا! اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کیا تو سب عوامی نمائندے چپ چاپ دم سادھے دیکھ اور سن رہے تھے ۔ چند ایک نے مریل اور منحنی سا احتجاج بھی کیا لیکن اس میں اتنی شدت نہ تھی۔عوام مر مر کے جی رہے ہیں بلکہ جی جی کے مر رہے ہیں اور ادھر حکومت غریب عوام کی رگوں سے خون کاآخری قطرہ تک نچوڑنے لگی ہے۔دہائی خدا دی اب حکومت مزید 170 روپے جمع کرے گی اور یہ پیسہ عوام کی جیبیں کاٹ کر نکالا جائے گا۔سچ پوچھئے تو جو بھی حکومت آئی اس نے غریب آدمی کا استحصال ہی کیا ہے۔ عوام تو پہلے ہی اپنی بساط سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں لیکن ساہوکار، صنعت کار،پراپرٹی ٹائیکون اور شوگر مل مافیا ٹیکس تو کجا اوپر سے حکومت سے سبسڈی لیتا ہے۔ایف بی آر بھی عوام کے ٹیکس پر ہی توجہ دیتا ہے، اسے بڑی مچھلیاں اور مگر مچھ کم ہی نظر آتے ہیں۔آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا عمران خان کا معاہدہ اور اسحاق ڈار کا موجودہ معاہدہ سامنے لانا چاہئے تاکہ عوام کو بھی معلوم ہو کن شرائط پر معاہدہ ہوا ہے۔

باخبر ذرائع کے مطابق حکومت نے ترقیاتی فنڈزکے نام پر ہر ایم این اے کو 50،50 کروڑکا فنڈ دیا ہے۔ یہ رقم مجموعی طور پر ایک کھرب ،ستر ارب سے بھی زائد بنتی ہے ،یعنیحکومت 170 ارب روپے ہی پاکستان پاک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ذریعے خرچ کرے گی۔کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ مذکورہ فنڈز روک لیے جاتے اور یہ منی بجٹ لا کر عوام کو ذبح نہ کیا جاتا ؟ یہی ترقیاتی فنڈز ادھر خرچ کر لیئے جاتے تاکہ عوام پر یہ بوجھ نہ پڑتا۔دوسری صورت میں ایم این اےز کا ترقیاتی فنڈ آئی ایم ایف کو قسطوں کی ادائیگی میں دیا جاتا تو آج یہ ٹیکسز نہ لگانے پڑتے۔ایک طرف حکومت رو اور چیخ رہی ہے کہ خزانہ خالی ہے،پیسہ نہیں ۔اور پھر منی بجٹ لا کر عوام سے پونے دوکھرب کے قریب ٹیکس اکھٹا کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب اتنی ہی رقم الیکشن جیتنے کے لئے اپنے ایم این ایز کو دی جاری ہے تاکہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں خرچ کر کے ووٹ پکے کریں۔شہباز شریف تو خیر نہ مانتے لیکن اگر مریم نواز کے اختیار میں ہوتا تو ہمارا حسن ظن ہے وہ یہ منی بجٹ نہ لاتیں۔وہ ترقیاتی بجٹ بانٹنے کی بجائے اسے بچا کر رکھتیں اور یہ جو بوجھ عوام کی گردنوں پر ڈالا گیا ہے وہ نہ ڈالتیں۔حکومت کو خود سو چنا چاہئے کہ آئے روز ٹیکس لگا کر اگر یونہی مہنگائی کی جاتی رہی تو کیا مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت سکے گی ؟اس منی بجٹ کے بعد پچیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے کو تو بھول جائیں اب ایک لاکھ تنخواہ لینے والوں کو بھی گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوگا۔

آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت نے مختلف اشیا اور خدمات پر لاگو سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی ہے۔اس سے تو مہنگائی اتنی بڑھ جائے گی کہ غریب آدمی کا جینا مشکل نہیں ناممکن ہی ہو جائے گا۔وہ بے چارہ کیا کرے گا؟ کمائے گا کیا اور کھائے گا کیا؟ متوسط طبقہ تو آگے ہی ختم ہو رہا ہے وہ بھی خط غربت سے نیچے آ جائے گا۔ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر میک اپ کا سامان، گھریلو ضروریات کی چیزیں ، صابن شیمپو وغیرہ مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان مجوزہ اقدامات پر عملدرآمد شروع کردے۔آئی ایم ایف اٹل ہے کہ عملدرآمد کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں ہوگا۔ مطلب یہ کہ مزید ٹیکس لگائے بغیر آئی ایم ایف راضی نہیں اور حکومت بھی ہر چیز مہنگی کرنے کے لئے تیار بیٹھی تھی۔اس منظر نامے میں پس بس غریب رہا ہے اوراس کا کوئی پرسان حال نہیں۔55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹوں، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے بھی جمع کئے جائیں گے۔

حالیہ منی بجٹ میں ایک فنکاری یہ دکھائی گئی کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ360 ارب سے بڑھا کر400 ارب روپے کردیا گیا۔گویا حکومت اپنے پسنددیدہ منصوبوں پر پیسے بڑھا رہی ہے اور اسے یہ غرض نہیں کہ غریبوں پر کیوں ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔پھر ہر پندرہ دن بعد بجلی اور پٹرول بڑھنے سے جو مہنگائی ہو رہی ہے وہ ان ٹیکسز سے الگ ہے۔صرف بجلی اور پٹرول ہی بڑھایا جاتا اور یہ ٹیکسز نہ لگائے جاتے تو بھی معاملہ قبول نہ تھا۔ ستم یہ ہوا بجلی ،گیس اور پٹرول بڑھانے کے ساتھ ساتھ مزید ایک سو ستر ارب کے نئے ٹیکسز لگا دیئے گئے ہیں۔یہ غریبوں پر دہرا عذاب ٹھہرا۔اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں صفائی پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عمران خان نے2019 میں آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا تھا، اسی معاہدے نے آج جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، یہ ایک حکومت کا نہیں ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور ستم ظریقی یہ کہ عمران خان کی حکومت نے اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے سے انحراف کیا، جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی توآئی ایم ایف کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بھروسے کے حوالے سے ایک وسیع خلیج آگئی۔وزیر خزانہ کی یہ بات یقینا ٹھیک ہوگی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں مزید ٹیکسز لگانے کا اختیار دے دیا جائے۔

پاکستان کا زرعی شعبہ کل جی ڈی پی کا 22.67 فیصد ہے اور ملک کی42.3 فیصد افرادی قوت زراعت سے وابستہ ہے۔گندم، چاول، گنا اورکپاس ہماری چار بنیادی نفع آور فصلیں ہیں۔ اصولی طور پر دنیا کی پانچویں بڑی آبادی کی غذائی ضروریات اور زرعی معیشت کے تقاضوں کے مطابق ہماری فی ایکڑ پیداوار کم از کم اوسط عالمی معیار کے قریب ہونی چاہئے۔ تاہم دنیا میں فی ایکڑ اوسط زرعی پیداوار 4میٹرک ٹن ہے اور پاکستان میں یہ شرح صرف 2 میٹرک ٹن ہے۔اگر حکومت صرف زراعت پر ہی توجہ دےدے،کسانوں اور کاشتکاروں کو ریلیف دے،بجلی ، پانی وافر اورکھاد سستی فراہم کر ے تو ہم زراعت سے ہی اتنا زرمبادلہ کما سکتے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف کے در پر نہ جانا پڑے۔اگر حکومت نے زراعت پر توجہ نہ دی تو پھر مزید قرضوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔اور مزید قرض لینے کا مطلب ہے کہ ادائیگی کے لیے مزید ٹیکسز کا اضا فہ۔کیا اس طر ح مسلم لیگ آئندہ الیکشن ہار نہیں جائے گی ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button