اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

عجب صورتحال اور غضب منظر نامہ

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)

 

پاکستان کی عجیب صورتحال ہو چکی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ میدان جنگ برپا ہو اور ہر کوئی اپنے حریف کو مات دینے پر تلا ہو۔یوں تو ہماری پیاری پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بے شمار کامیاب آپریشن کیے ہیں اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔لیکن اس کے باوجود حیران کن طور پر دہشت گردی جاری ہے۔کبھی پشاور میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے تو کبھی کراچی کرچی کرچی کر دیا جاتا ہے۔جو لوگ ملکی سکیورٹی کے ضامن ہیں وہ رسمی اور روایتی طور پر بیان دیکر بس چپ سادھ لیتے ہیں۔پھر چند دن بعد آگ اور خون کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور کئی غریب لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔نہ جنگجوؤں کی مشق ستم نئی ہے اور نہ ہمارے حاکموں اور والیوں کی مذمتی بیانات دینے کی ریت نئی ہے۔کئی عشرے بیت گئے پاکستان میں امن نایاب اور کم یاب ہو چکا اور یہاں مدت مدید سے وحشت وبربریت نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ پاکستان کے بجٹ پر نگاہ دوڑائیں تو ہم سب سے زیادہ دفاعی بجٹ پر خرچ کرتے ہیں۔اس کے باوجود شہری امن و سکون کی سانس لینے سے محروم ہیں اور آئے دن خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔

ملکی بجٹ میں دوسرے نمبر پر عدلیہ کا نمبر آتا ہے۔میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ماتحت عدالتوں میں لاکھوں کے حساب سے اور اعلی عدلیہ میں ہزاروں کے حساب سے کیس زیر التوا ہیں۔اس کے باوجود ہمارے منصف سیاسی کیس سننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔ ہمارے پارلیمنٹرین بھی اپنے مسائل خود حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔وہ افتاں و خیزاں اور کبھی کبھی کشاں کشاں اپنے سیاسی قضیے عدالت میں لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عدلیہ پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔

صورتحال عجب تو ہے ہی ملکی منظر نامہ بھی غضب ہے۔اس عجب صورتحال اور غضب منظر نامے کے درمیان اذیت میں مبتلا بے چارے غریب عوام ہیں۔ یقین جانیے زمانہ تو امن کا ہی ہے لیکن حالات جنگ جیسے ہیں۔ویسے بھی عوام میں اب سکت نہیں رہی کہ وہ مہنگائی اور دہشت گردی کا بیک وقت بوجھ اٹھا سکیں۔حکومت اپنے فرائض میں ناکام ہو چکی،سکیورٹی ادارے اپنی ڈیوٹی میں ناکام ہو چکے اور عدلیہ سائلوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو چکی۔ملک کی مجموعی صورتحال اور منظر نامہ اتنا اچھا نہیں کہ لوگ اچھے مستقبل کی امید ہی باندھ سکیں۔
سیاست، حکومت، عدالت اور عسکریت کو تو ایک طرف رکھیے سماج کا منظر نامہ بھی خوش کن یا امید افزا نہیں۔

عوام کا حکومت سے تو اعتبار اٹھ ہی چکا اب دوسرے اداروں پر بھی اعتماد میں کمی آ چکی ہے۔حالیہ دنوں میں اعلی عدلیہ کے ایک معزز جج کی جو ویڈیو لیکس سامنے آئی ہے،اس سے عوام میں شدید اضطراب اور بداعتمادی پیدا ہوئی ہے ۔سنجیدہ اور فہمیدہ طبقہ یہ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ ہمارے منصفوں کے ہاتھ صاف نہیں ہیں۔ظاہر و باہر ہے کہ جب اعلی و ارفع مسندوں پر متمکن شخصیات کی ذات ہی زد میں آجائے تو پھر اداروں کا وقار اور اعتبار کہاں جمتا ہے۔سریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطابندیال کو چاہیے کہ آڈیو لیکس کے معاملہ کو سپریم جوڈیشل کونسل میں لائیں،ٹھنڈے دل و دماغ سے تمام ججز صورتحال کا جائزہ لیں اور انصاف کریں تاکہ عوام کا اپنی عدلیہ پر اعتماد بحال ہو۔

اس منظر نامے میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بھی صورتحال اچھی نہیں۔تحریک انصاف کی اپوزیشن تو انتخابات کے لیے مری جاتی ہے اور پی ڈی ایم کی حکومت الیکشن کا التوا چاہتی ہے ۔اس مرحلے اور منطقے میں بھی اپنے اپنے مفادات ہیں جو حکام کو دلجمعی سے کام نہیں کرنے دے رہے۔ دہشت گردی معاشی بحران،بے روزگاری،مہنگائی اور لوڈشیڈنگ پر اگر حکومت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی تو حکومت میں رہ کر عمران خان نے بھی کوئی تیر نہیں مارا۔عمران خان کی حاکمیت کا تاریخی دور جس میں موجودہ تباہی کی بنیاد رکھی گئی ،وہ رعایا کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔

ملکی منظر نامے میں دوسری بڑی صورتحال معاشی بحران اور قرضہ جات کی ادائیگی ایک الگ مسئلہ ہے ۔یہ سب سیاسی عدم استحکام کے انڈے بچے ہیں جنہوں نے ہمیں اس ابتر صورتحال میں لا کھڑا کیا ہے ۔ اس انارکی اور افراتفری کے ڈانڈے 2016 سے ملتے ہیں جب اعلی عدلیہ نے پانامہ کے اقامہ پر نواز شریف کو گھر بھیجا۔وہ دن اور آج کادن ہے کہ ہمارے قدم تو آگے کو اٹھتے رہے لیکن سفر پیچھے کو کٹتا رہا۔سچ پوچھیئے تو پاکستان کے ہر ادارے نے خود کو مسیحا جانا اور اپنے اختیارات کاڈنڈا اٹھا کر اپنے مفاد کا عرق کشید کیا۔نتیجے میں وطن عزیز اس حال کو آن پہنچا کہ مستقبل پر بھی ناامیدی کے سائے پڑ چکے ہیں ۔اس کا حل اب اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ تمام ادارے صرف وہی کام کریں جو آئین نے انہیں تفویض کیے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button