
جنرل الیکشن اور نوازشریف کی واپسی
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر : ارشد محمود گھمن)
دو طرفہ بحران ہی کیا کم تھا کہ حکومت پھر ایک اور بھنور میں جا گری ہے۔معاشی تباہی اور سیاسی عدم استحکام ہی ابھی سنبھلے نہ تھے کہ عدالت نے حکومت کو الیکشن کے کنویں میں دھکا دے دیا۔اب دہرا ،سہرا بحران ہے اور ملکی ناﺅ ڈگمگا ہی نہیں رہی ڈوب رہی ہے۔حیرت ہے فتوے صادر کرنے والوں اور فیصلے دینے والوں کو اس کی پروا نہیں مگر حکمران غورو فکر میں ڈوبے ہیں کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی وقت ہونے چاہئیں تاکہ اخراجات بچ سکیں۔اس میں تو کوئی شک و شبہہ نہیں کہ عام انتخابات وقت پر ہونے چاہئے لیکن کیا اس کےلئے انتخابی اخراجات سرکاری خزانے میں ہیں ؟ کسی کو فکر نہیں کہ پیسے نہیں ،بس حکومت پر دباﺅ بڑھاتے جاتے ہیں تاکہ ملک واقعی دیوالیہ پن کو چھو جائے۔عدالت نے جھٹ سے فیصلہ تو دے دیا ہے ،اب حکومت بھی عرضی لے کر جائے کہ حضور والا انتخابی اخراجات بارے بھی کوئی فیصلہ صادر کر دیجئے کہ یہ کہاں سے اور کیسے آئیں گے۔دراصل ہم لمحہ موجود میں ایک بھنور میں ہیں اور نہیں معلوم کہ گرداب ختم ہونے کے بعد بھی طوفان تھمے گا کہ نہیں۔حکومت ویسے بھی فوری انتخابات میں نہیں جانا چاہتی ، اسے خوب اندازہ ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور عوام اب کی بار مسلم لیگ کو شاید اتنے ووٹ نہ دیں اور وہ ہار جائے۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے30 اپریل کو پنجاب میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد حکمران اتحاد میں شامل تین بڑی جماعتوں کے سربراہوں نے بھی سر جوڑ لیے ہیں۔شہباز شریف سے آصف زرادری اور مولانا فضل الرحمان نے گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم ہاوس میں ملاقات کی اور دستیاب آپشن پر تبادلہ خیال کیا ہے۔آصف زرداری نے تجویز پیش کی کہ اتحادیوں کو انتخابات کی تیاری کرنی چاہیے ۔ہمارے ذرائع کے مطابق اطلاع یہ ہے کہ انتخابات ایک ہی وقت پر ہوں گے اور اس ضمن میں پی ڈی ایم کو اگر عمران خان سے بھی مذاکرات کرنے پڑے تو وہ کریں گے۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ ملاقات کے دوران نواز شریف سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا گیا۔دوسری جانب تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں انفرادی طور پر الیکشن لڑیں گی یا ایک ہی پلیٹ فارم سے میدان میں اتریں گی۔ تینوں رہنماﺅں نے حتمی حکمت عملی طے کرنے سے پہلے مزید مشاورت کرنے اور دیگر اتحادیوں کو بھی اس میں شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔کچھ نیوزچینلز نے متضاد خبریں بھی نشر کی ہیں،ان میں دعویٰ کیا گیا ہے اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے،آصف زرداری کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کی تجویز سے مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف نے اتفاق نہیں کیا، ان کا خیال ہے موجودہ معاشی بحران کی وجہ سے انتخابی میدان میں اترنے کا یہ مناسب وقت نہیں ۔
جبکہ ہمارے ذرائع یہ کہتے ہیں حکومت چاہتی ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے اوربجٹ پیش کرنے کے بعد عام انتخابات کرا دیئے جائیں۔حکومت قربانی دینے کو تیار ہو گئی ہے کہ مہنگائی کا بوجھ اٹھا لیا جائے اور جون میں بجٹ پیش کرنے کے بعد الیکشن میں تاخیر نہ کی جائے۔اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے اور وہ فریقین کو ملک کے وسیع تر مفاد میں مذاکرات کی میز پر بٹھا سکتی ہے۔کپتان کی تو دیرینہ خواہش بھی یہی ہے کہ کسی طرح اس کے ٹوٹے ہوئے رابطے بحال ہو جائیں اور اسٹیبلشمنٹ انہیں کہے کہ آﺅ الیکشن کے لیے حکومت سے مذاکرات کرو۔ایسی صورت میں پھر ہوگا یہی کہ کچھ حکومت پیچھے کو آئے گی اور عمران خان کچھ آگے آ جائیں گے۔ہمارے ایک ذرائع کے تحریک انصاف سے قریبی تعلقات ہیں ،انہوں نے ہمیں رازدارانہ انداز میں بتایا ہے کہ اگر حکومت عمران خان کی نااہلی سے دستبردار ہو جائے تو تحریک انصاف بھی لچک دینے کو تیا ر ہو چکے ہیں۔اس ذرائع کی یوں بھی تصدیق ہوتی ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئر مین نے اپنے تازہ ویڈیو لنک خطاب میں یہ بھی کہا ہے کہ میں سب سے بات کرنے اور سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔عمران خان نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ دو صوبوں کی بجائے پورے ملک میں انتخابات ہوں، عوام اور اداروں کو ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ درون پردہ کچھ نادیدہ قوتوں نے عمران خان کو بھی بجٹ کے بعد الیکشن پر راضی کر لیا ہے ۔لیکن عمران خان سیمابی صفت والی شخصیت ہیں،کیا پتہ کب وہ اس سے منحرف ہو جائیں اور پھر مخالفوں پر چڑھ دوڑیں۔
غالب امکان اور قرین قیاس یہی ہے کہ تمام انتخابات اب ایک ساتھ ہی ہونگے۔یہ ممکن نہیں کہ پہلے پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا میں صوبائی انتخابات کرائے جائیں ،پھر بلوچستان اور سندھ میں الیکشن کا ڈول ڈالا جائے اور آخر میں قومی اسمبلی کا ناقوس بجا دیا جائے۔بجٹ پیش کرنے کے بعد جولائی میں تمام بلکہ عام انتخابات پر کام جاری ہے اور امید ہے کہ فریقین اس پر متفق ہو جائیں گے۔اس سے تھوڑا بہت آگے یا پیچھے بھی ہوا جا سکتا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کی خواہش ہے کہ موجودہ حکومت کو کم از کم بجٹ تو پیش کرنے دیا جائے۔پھر اہم محرک نواز شریف کی واپسی بھی ہے اور اس پر بھی سرعت سے کام جاری ہے۔جاتی امرا تک رسائی رکھنے والوں کا کہنا ہے نواز شریف کی لندن میں تمام تیاری مکمل ہے اور وہ کسی بھی وقت پاک سر زمین کو چھو سکتے ہیں۔الیکشن سے پہلے وہ ہر صورت واپسی چاہتے ہیں تاکہ وہ اور مریم نواز انتخابی مہم کی کمان کر سکیں۔ بس اک ذرا صبر کہ نواز شریف کی واپسی اور عام انتخابات کا اعلان ہوا چاہتا ہے۔