
تمام انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہیے
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)
جو ہوا ہے وہی ہونا چاہئے تھا لیکن دکھ یہ ہے پورے ملک کو ہیجان اور طوفان میں رکھ کر انتہائی تاخیر کے ساتھ پنجاب میں عام انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا گیا۔دو ووٹوں پر کھڑی پی ڈی ایم کی حکومت کمزور ہے، شاید اسی لئے پھونک پھونک اور سہم سہم کر گیلے پانی پر پاﺅں رکھ رہی ہے۔ گو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کھل کر کہا کہ صرف دو صوبوں میں انتخابات سے سیاسی عدم استحکام کا خطرہ ہے،اس سے انتشار ،انارکی بڑھے گی اور آئندہ مرکز کے انتخابات میں بھی دھاندلی کا خدشہ ہے۔دوسری جانب وزارت خزانہ نے بھی الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر با ضابطہ آگاہ کر دیا تھا کہ پنجاب اور پختونخوا میں الیکشن کے لئے درکار 20 ارب روپے سرکاری خزانے میں موجود نہیں۔ملک کا مجموعی سیاسی و اقتصادی اور عوامی منظر نامہ اس بات پر دلالت کرتا رہا کہ عام انتخابات ایک ہی بار ہونے چاہئیں تاکہ الیکشن صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ و منصفانہ ہوں۔عمران خان کی مگر منطق نرالی رہی کہ وہ کبھی کچھ کہتے رہے اور کبھی کچھ۔ان کی باتیں بیک وقت متضاد،متصادم اور عجیب و غریب رہیں کہ شیخ کا نقش قدم یوں بھی تھا اور ووں بھی۔
الیکشن کمیشن نے30 اپریل کو منعقد ہونے والے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرکے اب 8 اکتوبر کوکرانے کا اعلان کیا ہے۔الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا کہ آئین کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق انتخابی شیڈول واپس لیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے کہا اس وقت فی پولنگ سٹیشن پر اوسطا صرف ایک سکیورٹی اہلکار دستیاب ہے جبکہ پولیس اہلکاروں کی بڑے پیمانے پرکمی اور فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اس صورتحال میں الیکشن کمیشن انتخابی مواد، پولنگ عملہ، ووٹرز اور امیدواروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے متبادل انتظامات کرنے سے قاصر ہے،وزارت خزانہ نے بھی ملک میں غیر معمولی معاشی بحران کی وجہ سے فنڈز جاری کرنے میں ناکامی کا اظہار کیا ہے،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وفاقی وزارتوں کی بریفنگ کے بعد الیکشن کمیشن نے تفصیلی تبادلہ خیال کے لیے اہم اجلاس بھی منعقد کئے،غورکرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس صورتحال میں انتخابات کا منصفانہ اور قانون کے مطابق انعقاد ممکن نہیں ۔
ہم ایک ایسے نادر روزگار ملک پاکستان میں جی رہے ہیں جہاں جمہوری حکومتوں اور ان کے فیصلوں کے خلاف مزاحمت اور مخالفت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ورنہ دنیا بھرکے مہذب اور جمہوری ممالک میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت اگر کوئی پالیسی یا انتظا می فیصلہ کر دے تو مخالف سیاستدان عدالتوں میں جا کر اسے کالعدم قرار دلوا دیں۔ ایسا انہونا عجوبہ پاکستان میں ہی ممکن ہے کہ جمہوری حکومتوں کے فیصلوں کے خلاف یا ان کے بالکل بر عکس عدالتیں اپنے فیصلے صادر کر دیں۔آ پ اندازہ کیجئے کہ آج کل ہمسایہ ملک بھارت میں ایک اہم بحث چل رہی ہے کہ انڈیا میں جمہوریت کے امپائرگورنر کا عہدہ ختم کرنے کا وقت آ گیا یا نہیں؟گذشتہ ہفتے ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ریاستوں کے گورنر جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ نہ ہو کہ ان کی وجہ سے کسی ریاست کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے۔عدالت کا اشارہ مہاراشٹرا کے گورنر کی جانب تھا جنہوں نے گذشتہ سال ریاست کی اسمبلی میں حکمران جماعت کو ایک متنازع اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا تھا جس کے بعد حکومت گر گئی تھی۔ایسا شاندار اور لازوال فیصلہ بھارت کی سپریم کورٹ ہی دے سکتی ہے کہ وہ عوام کی منتخب حکومت کو مزید با اختیار اور با اعتماد بنا دے ۔ماضی کے دریچوں میں جھانکئے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک بار مرحوم صحافی ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ہندوستانی عدالت عظمی ہندوستانی عدالت عظمی ہے،ہماری پاکستانی عدالت عظمی ابھی قانونی نظیروں اور انصاف کی فراہمی میں اس سے کوسوں پیچھے ہے۔
ارشاد حقانی کی بات اپنی جگہ مرزا غالب نے اس سے کروڑ درجے انتہائی فصیح و بلیغ بات بہت پہلے کہی تھی:
ایک ہم ہیں لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
جی ہاں ! ایک ہم ہیں کہ ہماری جمہوری حکومت کی شکل مسخ ہو رہی ہے اور ایک بھارتی عدالتیں ہیں جو اپنی جمہوری حکومتوں کو سپریم تسلیم کرتے ہوئے ان کے راستے کشادہ کررہی ہیں۔ہم نے اپنی ہی صورت کو بری طرح بگاڑ لیا ہے اور ایک ہمارے مخالف ہیں جو اپنی بگڑی شکل سنوار رہے ہیں۔اب دیکھئے کہ عمران خان کا بدکتا ہوا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے،بیٹھتا ہے کہ کھڑا رہتا ہے۔الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کی سب سے زیادہ تکلیف ان کو ہی ہو گی ۔ان کی تکلیف،درد،غم و اندوہ اور چیخ و پکار سے اک زمانہ واقف ہے۔لیکن ملکی مفاد اور معاشی صورتحال اس چیزکی اجازت نہیں دیتی کہ ہر دو چار ماہ بعد کہیں نہ کہیں الیکشن ہوتے رہیں۔انتخابی اخراجات عمران خان کی جیب سے نہیں ہونے ،یہ خرچہ عوام کے پیسوں سے ہوتا ہے اور اسے حتی الامکان کم سے کم ہونا چاہئے۔تمام صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے ایک ساتھ ہی انتخابات ہونے چاہیئں۔اب یہاں مخمصہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی صورتحال واضح نہیں کہ یہاں کیا ہو گا۔ جو بھی ہو اب قوی امکاں ہے جوہوگا درست ہی ہو گا۔ہمارے اہم ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن عام انتخابات ایک ساتھ کرانے پر یکسو اور متفق ہو چکے ہیں۔یہ مخلوط حکومت کمزور سہی لیکن حالات و واقعات اور آثار و شواہد گواہی دیتے ہیں کہ آصف زرداری،مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف اگر متفقہ فیصلہ کر لیں تو وہ اپنی سی کر گزرتے ہیں۔