
حکومت کو دلیر اور دبنگ اٹارنی جنرل چاہئے
Chief executive, Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/ تحریر:ارشدمحمودگھمن)
تیسری دنیا کے درماندہ اور پسماندہ ممالک میں ایسے نہیں چلتا بابا۔اٹارنی جنرل دلیر اور دبنگ چاہئے جو اعلی عدا لتوں میں حکومت کا موقف سر اٹھا اور سینہ تان کر واضح کر سکے۔پاکستان میں شروع سے ہی جمہوری حکومتوں کو ریاستی اداروں کی طرف سے دباﺅ کا سامنا رہا ہے۔یہاں جہموری حکومتیں انتہائی نحیف و ناتواں اور اچھی خاصی کمزور واقع ہوئی ہیں۔آئے روز اعلی عدالتوں میں خصوصا مرکزی حکومت اور عموما صوبائی حکومتوں کے کیس لگے ہوتے ہیں۔ایسے پر آشوب ماحول اور کشمکش والی صورتحال میں اٹارنی جنرل ایک اہم اور خاص عہدہ تصور ہوتا ہے۔اگر اٹارنی جنرل کمزور ہو یا آئینی موشگافیوں یا پھر قانونی نکتہ آفرینیوں سے شناسا نہ ہو تو حکومتیں اپنا کیس ہار جاتی ہیں۔اگر حکومتیں اپنا کیس ہار جائیں تو پھر وہ یکسوئی اور دلجمعی سے عوام کی خدمت بھی نہیں کر پاتیں۔نہیں معلوم شہباز شریف نے کیا سوچ کر شہزاد عطا الہی جیسے کمزور اور بے پروا سے آدمی کو اٹارنی جنرل لگا دیا۔ان کی تقرری بارے میں سوشل میڈیا پر بہت سی کہانیاں کہی گئیں کہ وہ فلاں منصف کے منشی تھے اس لئے انہیں اٹارنی جنرل جیسا باوقار رتبہ مل گیا۔ کہنے والوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی تقرری میں براہ راست مخصوص قاضیوں کا بھی ہاتھ رہا اور اسی لیے ان کی تقرری تاخیر کا بھی شکار ہوئی۔خیر قصہ جو بھی ہو انہیں اب حکومت نے ہٹا دیا ہے اور اب وہ اٹارنی جنرل نہیں رہے۔
ہمارے ہاں یہ ریت اور رسم بھی خاصا رواج پا گیا ہے کہ جانے والا پھر خوب الزام تراشی کرتا اور قصے کہانیاں بیان کرتا ہے۔پھر وہ تمام چیزوں سے بے نیاز ہو کر اپنی گڈی اڑاتا ہے اور حکومت میں سو سو نقص تلاش کرتا ہے۔ظاہر و باہر ہے اسے پتہ ہوتا ہے کہ حکومت نے نکال تو دیا ہے ا ب میں بھی اپنا غصہ نکال لوں۔جیسے آج کل مفتاح اسماعیل ہیں اور انہیں ہر گھڑی حکومت پر تنقید کرنے کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔اب وہ ملکی معیشت کے ضمن میں پھول بوٹے کاڑھتے اور ستارے ٹانکتے ہیں ۔ حالانکہ جب وہ خود وزیر خزانہ تھے تب ڈھنگ کاایک بھی کام نہیں کر سکے۔انہیں رہ رہ کر اسحاق ڈار بھی وٹ چڑھتا ہے اور پھر وہ بے تکان اور بے تکی موجودہ وزیر خزانہ پر تنقید کرنے لگتے ہیں۔ان کا درد بتاتا ہے کہ وہ وزیر خزانہ سے ہٹائے جانے پر ابھی بھی تلملا رہے اور اپنے زخم سہلا رہے ہیں۔مستعفی اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی نے بھی ایسا ہی کیا ہے،انہوں نے ان میڈیا رپورٹوں کو غلط قرار دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ان سے استعفی لیا گیا ہے۔ حالانکہ ہمارے ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے اعلی عدالتوں سے پیہم اپنے خلاف فیصلے آنے کے بعد ان سے استعفی لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
بیرسٹر شہزاد عطا الہی نے کہا در اصل جب میں نے سینئر حکومتی ارکان کو استعفیٰ دینے کے ارادے سے آگاہ کیا تو مجھے کہا گیا کہ میں استعفی دینے کا فیصلہ موخر کردوں، ان کے کہنے پر میں نے اپنا استعفی ایک سینئر وزیر کے حوالے کر دیا کہ حکومت جب چاہے اسے استعمال کر لے، بد قسمتی سے کچھ سلیکٹڈ حقائق میڈیا میں لیک کیے گئے اور متعدد ٹی وی چینلوں کی جانب سے رابطہ کیے جانے کے باوجود میں نے ان سے بات نہیں کی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف کو بھی مفتاح اسماعیل کی طرح چوٹ گہری لگی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نے انہیں استعفی دینے کا حکم دیا تھا اور ان کے پاس تعمیل کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔چند دن قبل ماڈل ٹاﺅن میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا تھا،اس میں قانونی معاملات پر غورکیا گیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور معاون خصوصی عطا اللہ تارڑ اور ملک احمد خان بھی اس اجلاس میں شریک تھے، البتہ اٹارنی جنرل کی غیر حاضری نمایاں تھی۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستعفی اٹارنی جنرل کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی سے اچانک استعفی لینے کی وجہ یہ تھی کہ حکومت کا ان کے ساتھ اچھا تعلق نہیں تھا اور وہ انہیں کوئی ایسا شخص سمجھتی تھی جو اس پر مسلط کیا گیا ہو۔ہمارے ایک دوسرے ذرائع کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے نوجوان وکیل منصور عثمان اعوان کو نیا اٹارنی جنرل مقررکر دیا گیا ہے۔اس میںکوئی شک و شبہہ نہیں کہ شہزاد عطا الہی حکومت کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں،انہوں نے ہرکیس میں حکومت کو شکست کا ہی تحفہ عنایت کیا تھا۔پھر ان کا جس چیمبر سے تعلق ہے وہ بھی کوئی اچھا قانونی مرکز نہیں۔شہباز شریف کو ایک ایسے آدمی کو اٹارنی جنرل لگانا ہی نہیں چاہئے تھا جس کے ڈانڈے پانامہ بنچ سے ملتے ہوں۔حکومت کو عرفان قادر یا علی احمد کر د جیسے دلیر اور بہادر آدمی کی ضرورت ہے جو کیس لڑتے وقت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے،آئین کی منشا کو ہر صورت مقدم رکھے اور دھوپ چھاﺅں کے سارے موسموں میں کھل کر اپنی حکومت کا دفاع کرے۔عدالتی کٹہروں میں محض قانونی موشگافیوں ،آئینی نظیروں یا فنی گھتیوں سے آگاہی ہی کافی نہیں ہوتی،اٹارنی جنرل کے سینے میں دل بھی چاہئے جو خیانت اور رہزن کے ارادے بھانپ کر جری و جانبازی سے قانونی لڑائی لڑ سکے۔ امید ہے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان منصفوں کا ترازو کسی ایک جانب جھکنے نہیں دیں گے اور نہ ہی کسی کو قانونی تشریح و تعبیر کے نام پر شب خون مارنے دیں گے۔