
جنرل عاصم منیر کے دستور دوست فرمودات
Chief executive Arshad mahmood Ghumman
حقیقت/تحریر،ارشدمحمودگھمن)
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا نام تاریخ میں جگمگ جگمگ کرتا رہے گا اور رفعت و عظمت ان پر ٹوٹ ٹو ٹ کے برستی رہے گی۔قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں انہوں نے آئین،جمہوریت ،پارلیمنٹ اور عوام کے ضمن میں جو گفتگو کی ،ملک بھر کے تمام اخبارات نے انہیں شہ سرخیوں میں شائع کیا اور نیوز چینلوں نے اپنے پرائم شو میں اس کو جگہ دی۔ملکی حالات، دہشتگردی ،معاشی ،سیاسی اور عدالتی بحران کی وجہ سے پاکستان آج کل منہ زورموسموں اور سرکش طغیانیوں کی زد میں ہے۔ایسا لگتا ہے کوئی طوفان آیا ہو اور پورا ملک اس بھنور میں گھر گیا ہو اور باہر نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو۔سیاسی طاقتیں اپنی تمام ترحشمت و قوت کے باجود اس بھنور یا بحران سے نکل نہیں پائی ۔ایسے میں وزیر اعظم شہباز شریف پیہم اور پے در پے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس بلائے جاتے ہیں۔لیکن تازہ اجلاس میں ہمارے سپہ سالار نے خدشات،خطرات اور خوفناک عزائم کے ناگ کا پھن کچل دیا ہے۔سنجیدہ اورفہمیدہ لوگوں کا گماں ہے کہ تاریک شب کے سناٹے اور گھپ اندھیرے میں جنرل کی تقریر سے ایک مشعل جل اٹھی ہے کہ پارلیمان بالاتر اور سپریم ہے اور پاک فوج اس کی پشت پر کھڑی ہے۔ایسے میں کوئی مہم جوئی یا کسی موشگافی سے عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ ہی جمہوریت پر کوئی شب خون مارا جا سکتا ہے۔
چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے اسمبلی ہال میں قومی سلامتی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے طاقت کا محور عوام ہیں ،آئین کے تحت اختیار پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا،منزل کا تعین منتخب نمائندے کریں،فوج بھرپور ساتھ دے گی،نئے یا پرانے پاکستان کی بحث چھوڑ کر اب ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہئے۔اس اعلی سطحی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف،وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ ،وزیر خارجہ بلاول بھٹو،وزیر دفاع خواجہ آصف، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم، ڈی جی ملٹری آپریشن، اعلیٰ عسکری حکام ، وفاقی سیکرٹریز داخلہ، خارجہ، فنانس، دفاع ، اطلاعات و نشریات ، چاروں صوبائی وزرائے اعلی اور دیگر حکام بھی شریک تھے۔جنرل عاصم منیر نے1973کے آئین کے نفاذ کے50 سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کو مبارکباد بھی دی۔انہوں نے مزید کہا اختیارات کا مرکز پاکستان کے عوام ہیں، آئین اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کا مظہر ہیں، عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کرتے ہیں،آئین کہتا ہے کہ سرکاری اور حکومتی اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوگا،دہشتگردوں کےخلاف یہ نیا آپریشن نہیں، یہ عوام کے غیر متزلزل اعتماد کی عکاسی کرتا ہے جس میں ریاست کے تمام عناصر شامل ہیں، اس کامیابی کے پیچھے ایک کثیر تعداد شہدا اور غازیوں کی ہے، انہوں نے اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی۔
خیر یہ تو بات تھی ہمارے سپہ سالارکی ۔ بعد ازاں وزیر دفاع خواجہ آصف بھی بولے اور انہوں نے کہا آرمی چیف نے کچھ دیر پہلے پارلیمنٹ کی بالادستی کے بارے میں جو الفاظ کہے وہ انتہائی خوش آئند ہیں،آج پارلیمنٹ کا کردار زبردستی ایک دوسرا ادارہ ادا کرنا چاہتا ہے، ہم بھی عدلیہ کی مضبوطی چاہتے ہیں، عدلیہ مضبوط ہوگی تو عوام کو انصاف کی فراہمی میں آسانی ہوگی۔کہا جاتا ہے کہ اس سے قبل کسی بھی آرمی چیف نے اس طرح کھل کر آئین کی تعظیم نہیں کی تھی نہ ہی کسی جنرل نے اس طرح دستور کو اعتبار اور افتخار بخشا تھا۔جنرل عاصم منیر شاید پہلے آدمی ہیں جنہوں نے برملا،پارلیمنٹ ،آئین اور جمہوریت کی مسلمہ اتھارٹی تسلیم کی اور پارلیمان کو برتر اور بالا دست قرار دیا ہے۔وہ بھی ایک ایسے کڑے اور کٹھن وقت میں جب ہر سو اضطراب پھیلا ہے اور چہار جانب کسی انہونی یا سونامی کا خدشہ پایا جاتا ہے۔بڑے بڑے شیر بہادر جیسے حکام اور اونچے اونچے وزیر و مشیر بھی مصلحت کی بکل مارے بیٹھے ہیں کہ مبادا کوئی پہاڑ ہم پر ہی نہ گر جائے۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس پر ایک پہاڑ گرا دیا گیا اور وہ بستر پر پڑے کراہ رہے ہیں۔
پاکستان کے اس وقت حالات ایسے ہیں کہ سوئی بھی گرے تو آواز سنائی دے۔خاموشی ایسی ہے کہ سناٹا بھی چیخ اٹھتا ہے کہ خبردارکو ئی طوفان یا آندھی آیا چاہتی ہے۔ان پر آشوب لمحات میں ایک طاقت ور ادارے کا اپنی پارلیمان کے ساتھ کھڑے ہونے اور آئین کی اتباع کا اعلان اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی بلا پاکستانی جمہوریت کو نگلنے کی مذموم سعی نہ کرے۔منہ زور موسموں اور منجمد رتوں میں جنرل عاصم منیر کے یہ دستور دوست الفاظ جمہوری حکومت کے لئے کسی توانائی کے ٹانک سے کم نہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ،پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی قیادتیں اور کارکنان اپنے آرمی چیف کے فرمودات اور ارشادات پر کھل اٹھے ہیں کہ ہاں کوئی بولنے والا بولا۔سننے والوں نے بھی سنا لیکن یہ الگ بات کہ ماننے والے خاموش ہیں۔راوی روایت کرتا ہے کہ اب ماننے والوں کو بھی مان کر بنے گی کہ اس کے سوا چارہ کوئی نہیں ،راستہ کوئی نہیں اور جادہ بھی کہیں جاتا نہیں۔پاکستان اس وقت انتہائی نازک منطقے میں داخل ہو چکا ہے،انتہائی حساس مرحلے پر آن کھڑا ہے اور لطیف و خفیف دوراہے پر بس موڑ مڑنے چلا ہے۔یہ ایک جمہوری اور آئین پرور موڑ ہے جو کبھی کشاں کشاں اور کبھی افتاں و خیزاں مڑا جاتا ہے۔پارلیمان کا یہ موڑ جب عوام کی طرف مڑتا ہے تو اس سے دبے کچلے اور گرے پڑے لوگوں کے آنگنوں اور صحنوں میں بھی خوشی اور خوشحالی آن پہنچتی ہے۔