اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

خبروں کی منڈی میں مندی نہیں

Chief Editor,Arshad mahmood Ghumman

حقیقت/تحریر:ارشدمحمودگھمن)

بیتتے شب وروز اورگزرتے لمحات میں ان گنت اور بے شمار خبریں ہیں۔اب لکھنے والا کس موضوع پر طبع آزمائی کرے کہ خبروں کے ہجوم میں سجھائی نہیں دیتا کہ کیا لکھا جائے۔ میڈیا کی مین سٹریم میں بلاول بھٹو کا دورہ گوا چھایا رہا۔پاکستان کے پرنٹ میڈیا،الیکٹرونک میڈیا یا سوشل میڈیا کو تو ایک طرف رکھئے کہ یہ گھر کی بات ہے،بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھی بلاول بھٹو کے ایس سی او اجلاس میں شرکت کو بھر پور اورخوب کوریج دی۔گو پاکستانی وزیر خارجہ دورہ گوا سے واپس پلٹ آئے ہیں مگر ہنوز میڈیا میں اس کی بازگشت اور سرگزشت سنی جا رہی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے مذکورہ اجلاس میں بلاول بھٹو نے کامیاب سفارت کاری اور ہنر آزمائی کی کہ بھارت کی سرزمین پر ہی مودی کو للکارا۔انہوں نے نفیس و نستعلیق انداز میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور بھارتی سر زمین پر کھڑے ہو کر نریندر مودی کے فاشسٹ اقدام کی مذمت کی۔بلاول بھٹو کو ذہانت و فراست اپنے نانا ذوالفقار بھٹو سے وراثت میں ودیعت ہوئی ہے تو بصیرت و سفارت اپنی ماں بے نظیر بھٹو سے پائی۔انہوں نے بھارتی صحافیوں کے تندو تیز اور تلخ سوالات کا بھی بڑی خوبصورتی اور نفاست و برداشت سے سامنا کیا۔انہوں نے کلبھوشن یادیو کا نام لیکر بھارت کو باور کرایا کہ ہم پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیے اور بتایئے کلبھوشن پاکستان میں کیا کررہا تھا؟ قصہ مختصر بلاول بھٹو کے اس دورہ کو تا دیر یاد رکھا جائے گا اور بھارت اس کی تلخی بھی کافی دیر تک محسوس کرتا رہے گا۔

ادھر حکومت کارزار مملکت میں الجھی ہوئی ہے، وزیر خارجہ مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں پر اجاگر کر رہے ہیں تو دوسری جانب عمران خان کاانتشار،احتجاج اور رونا پیٹنا بھی جاری ہے۔انہوں نے پھر روایت کے مطابق احتجاجی جلسوں،ریلیوں اور مظاہروں کا پروگرام بنا لیا ہے۔ عمران خان نے لاہور میں اپنے خطاب کے دوران14مئی تک پنجاب میں اٹک تک جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے شان بے نیازی کے ساتھ مایوسانہ لہجے میں کہا ہے کہ پنجاب کے انتخاب کا اعلان ہو چکا ہے اس کی انتخابی مہم چلا رہا ہوں، اگلے ہفتے سے جلسے شروع کروں گا اور 14 مئی تک اٹک تک جلسے کروں گا۔اللہ اللہ ! کوئی تو ہو جو ان سے پوچھے کہ خان صاحب کون سا الیکشن ؟آپ کی ساری باتیں خوابوں میں ہیں،ساری منصوبہ بندیاں خیالوں میں ہیں۔الیکشن تب ہوںگے جب باضابطہ الیکشن کمیشن اس کا اعلان داغ دے گا۔عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نگران حکومتوں کی مدت پوری ہو چکی اور وہ غیرقانونی ہیں۔راوی روایت کرتا ہے کہ عمران خان کو چودھری پرویز الہی نے بڑا سمجھایا تھا کہ حضور اسمبلیاں نہ توڑیں ورنہ الیکشن الیکشن کرتے پھریں گے۔آج پرویز الہی کا کہا ہوا سچ بن کر سامنے آ چکا ہے اور خان صاحب الیکشن کے لئے مارے مارے پھررہے ہیں۔کبھی اس کے در پر اور کبھی اس کے در پر مگر انہیں خیر کہیں سے پڑ نہیں رہی۔ مذاکرات سے وہ بھاگ چکے ہیں اور حکومت کے ساتھ وہ بیٹھنا نہیں چاہتے۔اب ایسی صورت میں انہیں الیکشن کون دے گا؟ خان صاحب کو اب سوچنا،سمجھنا اور ماننا چاہئے :

جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے

خبروں کے اژدہام میں ایک خبر ایسی بھی ہے جو انتہائی افسوسناک اور اندوہناک ہے۔ توہین مذہب کے الزام میں مردان میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک شخص مارا گیا ہے ۔اس خبر نے باشعور اور حساس پاکستانیوں کو مضطرب کر کے رکھ دیا ہے۔سجنیدہ طبقہ سوچ رہا ہے کہ آخر ہم کس سمت میں جا نکلے ہیں،کون سی وادی ہے جہاں ہم پہنچ گئے ہیں۔قیام پاکستان سے ربع صدی تک تو ہمارا معاشرہ اتنا متشدد پسند نہ تھا۔خیبر پختونخوا پولیس کے ذرائع کے مطابق ایک مشتعل ہجوم نے مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے بعد ایک شخص کو اس کے بھتیجے کے ہمراہ ایک گھر میں قید کر دیا تھا جس کے بعد چند نا معلوم افراد نے گھر میں گھس کر اسے قتل کر دیا۔میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مرنے والے شخص نے مقامی رہنما کی تعریف کرتے ہوئے مبینہ طور پر کچھ ایسے الفاظ کہے جنھیں ریلی میں موجود لوگوں نے توہین مذہب قرار دیا تھا اور مشتعل ہو گئے۔ضلعی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اس شخص کو بچا کر ایک مکان میں لے گئے لیکن مشتعل لوگوں نے وہاں جا کر اسے فائرنگ کر کے مار دیا۔پولیس ذمہ داروں کا تعین کر رہی ہے۔اب کون مجرموں کا تعین کرے گا اور کیسا تعین۔سچی اور دل لگتی بات یہ ہے کہ اگر مقتول نے واقعی توہین آمیز کلمات کہے تھے،تب بھی اسے قانون کے حوالے کرنا چاہئے تھا۔اپنی عدالتیں لگانے اور اپنے فیصلے سنانے کا کسی کو اختیار حاصل نہیں۔

خبروں کی مارکیٹ یا منڈی میں کبھی مندی نہیں رہی۔ ایک دلدوز خبر یہ بھی ہے کہ قبائلی ایجنسی ضلع کرم میں چار اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کر کے انہیں بھی ابدی نیند سلا دیا گیا۔حیرت ہوتی ہے کہ جہاں علم بانٹنے والے بھی محفوظ نہیں تو پھر یہاں محفوظ کون ہو گا۔ہمارا سماج اتنا بد امن پہلے کبھی نہ تھا جتنا اب ہو چکا ہے۔گھڑی گھڑی اور لمحہ لمحہ ایسے واقعات اور سانحات ہو رہے کہ پناہ بخدا۔ایسا لگتا ہے یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ،سماج بھی اپنی اخلاقی گرفت کھو چکا ہے۔سیاسی انتشار اور جمہوری لڑائی ہی کیا کم ہے کہ آئے روز قتل و غارت اور ڈکیتیوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔دانشور اور عقل مند لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ جب سیاسی استحکام نہیں آتا تب امن وامان کی صورتحال خراب و زبوں رہتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ معیشت اور امن سیاسی استحکام اور جمہوری قرار سے مشروط ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو چاہئے کہ حکومت کو امن سے کام کرنے دیں تاکہ وہ عوام کے جان ومال کی حفاظت کر سکے۔مہنگائی کا قلع قمع کر سکے اور لوگوں کو سکون و اطمینان کا سانس نصیب ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button