اہم خبریںپاکستانفیچر کالمز

بلاول بھٹو کا آئین کی حاکمیت کا پر چار

Chief executive, Arshad mahmood Ghumman

حقیقت /تحریر:ارشدمحمودگھمن)

 

بلاول بھٹو اور مریم نواز نسل نو کے لیڈر ہیں اور دونوں جب بھی خطاب،گفتگو یا کہیں پریس کانفرنس کرتے ہیں کمال کرتے ہیں۔بے لاگ اور بے خوف و خطر بات کرنا ان کا خاصہ رہا ہے، اسی لئے پیپلزپارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ کے متوالے ان دونوں کو دل و جاں سے پسند کرتے ہیں۔دونوں لیڈروں کا پاکستان کے آئین کے باب میں رویہ اور نظریہ بے لچک ، صاف اور واضح رہا ہے۔دونوں لیڈر ہی ملکی دستور پر کوئی سمجھوتہ یا نرم رویہ اختیار کرنے کے قائل نہیں۔دونوں سول بالادستی کے علمبر دار اور عوام کے حق حکمرانی کے اسیر ہیں۔ ویسے بھی مہذب ممالک میں آئین کو کلی اور حتمی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔امریکا اور برطانیہ یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ممکن ہی نہیں عدلیہ یا فوج حکومت کے معاملات میں مداخلت کر سکے۔آئین کی اہمےت دنیا بھر میں مسلمہ اور مستند ہے اور اکثر اقوام و ممالک کی ترقی کے ڈانڈے اپنے اپنے ملکوں کے دساتیر کی اتباع میں پوشیدہ ہےں۔آئین ایک ایسی چیز ہے کہ جہاں جہاں اس کی حکمرانی ہے ،وہاں وہاں عوام خوشحال اور سکون و اطمینان میں ہےں۔آئین کی فرمانروائی والے ممالک میں امن و امان اور خوشحالی مثالی اور عوام کا معیاز زندگی بلند ہے۔

پاکستان کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر کوئی غیر جمہوری قدم اٹھایا گیا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے، جہاں سے بھی لگا کہ آئین کو خطرہ ہے تو اس کا مقابلہ کریں گے۔سوچا جانا چاہئے کہ بے نظیر بھٹو کے وارثکو ایسی انتہائی نوعیت کی بات کہنے کی ضرورت یا نوبت کیوں پیش آئی۔دراصل اس وقت پاکستان عجیب سے سیاسی حالات سے گزر رہا ہے ۔ایک جانب سے ملک کی ناﺅ کو ساحل پر لانے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب سے ایک سیاسی جماعت کی دیرینہ خواہش ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر جائے یعنی ڈوب جائے۔خاکم بدہن ! کئی بار ببانگ دہل عمران خان بڑ ہانک چکے ہیں کہ پاکستان سری لنکا بن جائے گا۔ ایسے کٹھن اور تنگ حالات میں بھی کچھ شر پسند اپنی اپنی من مانیاں کر رہے ہیں ،جس کی وجہ سے کشاکش،کھینچا تانی اور پھڈا بازی کی فضا بنی ہوئی ہے۔کوئی پتہ نہیں چل رہا کہ مقتدر قوت نافذہ کس کے پاس ہے ۔ہر کوئی حوالہ تو آئین ہی کا دے رہا ہے لیکن آئین کے حوالے اور لبادے میں پی ڈی ایم کی متحدہ حکومت پر درون خانہ الیکشن کرانے کے لئے دباﺅ ڈالا جا رہا ہے۔اسی تناظر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو شاید تنبیہ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو گی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری جماعت ہمیشہ سے غیر آئینی اقدامات کے خلاف رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی، جس وقت سے ہم آج گزر رہے ہیں یہ بھی ایک مشکل ترین امتحان ہے، اگر اس امتحان میں پاس ہوتے ہیں تو ہماری کامیابی ہے اگر ناکام ہوتے ہیں تو ملک کا نقصان ہو گا۔آگے چل کر بلاول بھٹو نے ایک اور اہم بات بھی کہی۔انہوں نے کہا پیپلز پارٹی ایک کمیٹی تشکیل دے رہی ہے جو تمام سیاسی پارٹیوں سے رابطے کرے گی کہ کس کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت ہم الیکشن اور پارلیمان میں ایک دوسرے کے ساتھ چلیں گے،ہم جس معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہے ہیں، ملکی تاریخ میں کبھی بھی ایسے بحران سے نہیں گزرے، کوشش کر رہے ہیں کہ یہ نظام بہتر طریقے سے چلے، اگر ہر سیاسی جماعت کا ایک ہی ایجنڈا ہوا کہ نہ کھیلوں گا نہ کھیلنے دوں گا تو نقصان عوام کا ہوگا اور ہو رہا ہے،ملکی اداروں کو بھی اسی آئین نے کھڑا کیا ہے، ہمارے صوبوں میں بھی حکومتیں ہیں اور وہ آئین کی وجہ سے ہیں،آئین کی پاسداری کے لیے ہمیں مزید مشکل وقت سے گزرنا ہو گا۔

اس پوری گفتگو میں بلا ول بھٹو کا لفظ لفظ آئین کی حرمت اور اس کی اتھارٹی کو بیان کررہا تھا۔وہ اپنے خطاب میں کسی مدبر کی طرح پاکستان کے دستور پر اپنی فصاحت و بلاغت کے دریا بہا رہے تھے۔جملہ جملہ اور فقرہ فقرہ آئین کی خوشبو میں معطر تھا اور وہ اپنا درد دل اس طرح دکھا رہے تھے کہ اگر مہذب جمہوری ممالک میں ایسا ہوتا تو لوگ والہانہ ان کی بلائیں لیتے۔ آخر میں بلاول بھٹو نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئےکہا کہ گذشتہ سلیکٹڈ دور بھی آئین کے لیے امتحان تھا، عمران خان کے دور میں جو آئین کا نقصان ہوا وہ کسی اور دور میں نہیں ہوا،عمران خان نے اداروں کو دھمکایا اور آئین کو کمزور کرنے کی کوشش کی، عمران خان کے دور میں جو نقصان ہو رہا تھا وہ اب نہیں ہو رہا، اس وقت ہمارا نظام اور آئین خطرے میں تھا۔پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ سیاستدانوں کو آئین کی حفاظت اوراس کی حاکمیت کے لئے جنگ لڑنی پڑی ہے۔بارہا ایسا ہوا کہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا اجلاس محض آئین کی کسی شق میں ترمیم کے لئے بلایا گیا ۔ایوان زیریں اور ایوان بالا میں اکثر پارلیمنٹرین آئین پر اکھٹے ہوئے اور آئین کی بالا دستی پر عہد و پیماں بھی کئے گئے۔ گو نواز شریف ”ووٹ کو عزت دو “ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہیں لیکن اس کی بھی اصل روح اور منشا آئین ہی کی بالادستی کی ہے۔گئے وقتوں2006 میں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اکھٹی ہوئیں اور لندن میں دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت طے پایا تو اس کے پیچھے بھی آئین ہی کی بالادستی کارفرما تھی۔میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے دستور کی برتری اور پارلیمانی جمہوری نظام کو ہموار رکھنے کے لئے ہی اس پر دستخط ثبت کئے تھے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button