اہم خبریںفیچر کالمز

لاہور ہائیکورٹ میں ایسا منظر تھا کہ جیسے تامل فلموں میں دکھایا جاتا یے کہ ” بھائی” آنے والا ہے

Chief executive,Arshad mahmood Ghumman

تحریر:محسن بلال )

 

لاہور ہائیکورٹ میں ایسا منظر تھا کہ جیسے تامل فلموں میں دکھایا جاتا یے کہ ” بھائی” آنے والا ہے. جیسے فلموں کی شوٹنگ کے دوران "بھائی” کی انٹری سے پہلے ایک پورا ماحول ترتیب دیا جاتا یے. ایسے ہی کچھ مناظر سابق وزیر اعظم اور چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی لاہور ہائیکورٹ میں پیشی سے پہلے اور بعد میں دیکھنے کو ملے ۔ان کی ہائیکورٹ میں انٹری اور کمرہ عدالت میں پیشی تک ایک پراسراریت اور سسپنس رکھا گیا تھا. سارا سکرپٹ بھائی کی منشا پر لکھا گیا تھا۔ معزز ججز کی دو الگ الگ عدالتیں انکا انتظار کر رہی تھیں. جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے سامنے عبوری ضمانت کیلئے بھی عمران خان نے خود پیش ہونا تھا جبکہ جسٹس طارق رحیم شیخ کے سامنے اپنے دستخط کی تصدیق کیلئے بھی حاضر ہونا تھا۔ پیر کے دن دوپہر دو بجے انہی۔ عدالت پہنچنا تھا. اس سے قبل دو سماعتیں ہوچکی تھیں. سابق وزیر اعظم کی پیشی کیلئے بار بار تاریخ اور وقت بھی آگے کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ جسٹس طارق سلیم شیخ نے ایک سماعت کے دوران یہ ریمارکس بھی دیئے کہ ایمبولینس پا یا اسٹریچر پر جیسے بھی آئیں، عمران خان خود پیش ہوں. وہ سیاسی ملاقاتیں کرتے پھرتے ہیں لیکن عدالت نہیں آتے. ان ریمارکس اور اس عدالتی معاملے کا تعلق اس سارے ماحول اور بھائی کی پر اسرار انٹری سے ہی تھا. پیر کو عمران خان کی لیگل ٹیم نے درخواست دی کہ عمران خان کی جان کو خطرہ یے لہذا انکی گاڑی کو کمرہ عدالت کے سامنے تک آنے دیا جائے. درخواست مسترد کردی گئی. پھر پولیس کی بھاری نفری کیساتھ ایک لوہے کی جالیوں کی حفاظتی بار بنائی گئی جس کا وکلاء کی پارکنگ سے جسٹس طارق سلیم شیخ کے کمرہ عدالت تک تقریباً 300 میٹر کا فاصلہ بنتا ہے. دوبجے سماعت شروع ہوئی. عمران خان پیش نہ ہوئے. شام پانچ بجے تک سماعت ملتوی کردی گئی. جس کے بعد ماحول بننا شروع ہوا. دوسری جانب زمان پارک سے لاہور ہائیکورٹ تک تحریک انصاف کے ترانے گونجنے شروع ہوگئے. جب معلوم ہوا کہ بھائی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور عدالت عبوری ضمانت کیلئے پیشی کیلئے جاریے ہیں. ہائیکورٹ کے تمام دروازے بند کر دئیے گئے. تب تک تحریک انصاف کے کارکن ہائیکورٹ کے ہر کونے میں پہنچ چکے تھے. کچھ نے تو وکلاء والا لباس پہنا ہوا تھا. یہاں سے فارورڈ کرکے جسٹس باقر نجفی کے کمرہ عدالت کا ماحول آپکو بتاتے ہیں. چہ میگوئیاں تھیں. چار بجے کے بعد عمران خان قافلے کی صورت زمان پارک سے روانہ ہوا. سیاست اور صحافت کا ایک ادنی طالب-علم بھی جانتا یے کہ اتنے رش میں وقت پر خان نہیں پہنچ پائے گا. مگر ماحول بھی تو بنانا تھا. ایسے میں بریگیڈیئر ر اعجاز شاہ کمرہ عدالت میں پہنچے. پھر پانچ بجے کے بعد شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور شبلی فراز پہنچے. لیکن بھائی نہ پہنچے. عمران خان کے وکلاء نے عدالتی عملے کو درخواست کی کہ رش زیادہ ہے اور عمران خان راستے میں کچھ تاخیر ہو گی. پانچ سے چھ بج گئے. فرح حبیب کی بھی کمرہ عدالت انٹری ہوئی. اس دوران ہماری تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما سے بات ہوئی جس نے کہا ” کسی کی wicket پر نہیں کھیلنا چاہیے” اصل میں وہ سمجھانا چاہ رہے تھے کہ ہر شخص کی اپنی ایک الگ راج دھانی ہوتی ہے. ججز بھی ان میں سے ایک ہیں. پھر کسی نے آکر بتایا چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی گاڑی جی پی او چوک والے گیٹ سے احاطہ عدالت میں داخل ہوچکی ہے. وقت گزر رہا تھا. کمرہ عدالت میں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ماحول بنایا. عمران خان کے وکلا خواجہ رحیم الدین اور اظہر صدیق کو شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان آچکے ہیں. ججز صاحب سے درخواست کرکے وہ گاڑی میں ہی تصدیق کر لیں سیکیورٹی کا ایشو ہے پولیس تعاون نہیں کر سکتی ایسے میں عمران خان نہیں آسکتے. انکی ٹانگ زخمی ہے کوئی دھکا لگ گیا تو نقصان ہوگا. معزز جج نے زبانی درخواست مسترد کردی. 6 بجکر 50 منٹ یعنی ایک گھنٹہ پچاس منٹ کی تاخیر سے سماعت شروع ہوئی. جسٹس علی باقر نجفی جو دو رکنی بنچ کے سربراہ تھے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے. انھوں نے استفسار کیا کہ پٹشنر کہاں ہیں؟وکلاء نے کہا وہ گاڑی میں بیٹھے ہیں سیکورٹی کی وجہ سے نہیں آ رہے. خیر ایس پی کو بلایا گیا. انکو دا منٹ کا وقت دیا گیا سیکورٹی کلئیر کرانے کا. ایسے میں جج کے سامنے خواجہ رحیم الدین نے ایک جذباتی تقریر کردی عمران خان کے حق میں جس میں دلائل کم اور جذبات زیادہ تھے. علی باقر نجفی نے ریمارکس دئیے کہ عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش تو ہونا پڑے گا. انھوں نے پھر پندرہ منٹ کا وقت دیا اور سماعت ملتوی کردی. پھر کیا تھا وکلاء باہر گئے. پولیس باہر موجود تھی. اچانک نعروں کے ساتھ بھائی یعنی عمران خان کی کمرہ عدالت میں انٹری ہوتی ہے. چند منٹوں بعد علی باقر نجفی آتے ہیں. عمران خان کھڑے ہوتے ہیں. کہتے ہیں انکی جماعت کا نام ہی تحریک انصاف ہے اور وہ قانون کا احترام کرتے ہیں. جسٹس باقر نجفی سراہتے ہیں اور 3 مارچ تک عبوری ضمانت دے دیتے ہیں. آدھے گھنٹے تک اس کے بعد بھائی کمرہ عدالت میں بیٹھتے ہیں پولیس اور عدالتی عملہ سلفیاں بناتا ہے. پھر بھائی نعروں کی گونج میں جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں چل کر جاتے ہیں. وہاں سے بھی ریلیف مل جاتا ہے. ہمارے خیال میں کسی ہندی فلم کا عمران خان کی عدالت کے سامنے دی گئی Statement کو لیکر ایک ڈائیلاگ آتا ہے کہ ” ماں قسم،،، آپن قانون کا بہت احترام کرتا ایچ”. یہ لوگ آپن سے پیار کرتے ہیں. آپن کی محبت ایچ میں آئے ہیں”. یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس کسی کی منشاء اور انا کی تسکین کیلئے پورا ہفتہ لاہور ہائی کورٹ میں یہ ڈرامہ لگا. ججز بار بار کمرہ عدالت میں آتے اور جاتے رہے کیا کسی عام پاکستانی کو انصاف کیلئے بھی یہ ایسا سب کچھ عملی طور پر کرسکتے ہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button